
حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نظر سے گزری جس میں ایک تصویر کشش ثقل کی طرح کھینچتی رہی ۔یہ تصویر یورپ کینڈا یا امریکا کی نہیں بلکہ پڑوسی ملک بھارت کی تھی ۔
پوسٹ یہ تھی کہ:
"انڈیا میں نہروں کے اوپر سولر پینلز لگائے جا رہے ہیں، اس سے جگہ کی بچت ہوگی، پانی بخارات بننے سے بچے گا اور سولر پینلز ٹھنڈے بھی رہیں گے”
ویسے میں سوچ سے عاری انسان ہوں لیکن تھوڑا سوچ ہی لیا کہ کاش ہمارے ملک کے سیاست دان اور ایٹم کے رکھوالے کچھ ملکر ملک کے لیے سوچ لیں۔ سولر پینل نہروں پر نہ لگائیں،مگر کم سے کم جنہوں نے اپنی چھتوں پر پینل نصب کیے ہیں ان پر ٹیکس تونہ لگائیں ۔
بہرحال ہمارے سوچنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔چلیں شکر ہے سوچ پر پابندی نہیں ،ورنہ تو آپ کو سوچنے کے لیے بھی "وی پی این ” پراکسی آن کرنا پڑے گا۔ بہرحال کوئی بات نہیں ،اگر ایسا ہوتا تو کچھ کرہی لیتے۔
پھر سوچتے سوچتے سوچ ریڈ لائن کے اس پار جانے والی تھی کہ اچانک ہوش آ گیا ،لیکن چلیں کیا سوچ رہا تھا تھوڑا شئیر کر دیتا ہوں ۔
سوچ یہ تھی کہ ملک میں کوئی عام آدمی کھمبے کے ساتھ لگی لائٹ توڑ دے تو غداری کہلاتا ہے،لیکن سوٹ بوٹ والے سرکاری بابو کچھ بھی کریں انہیں چھوٹ ہے۔ یہ سوچتے ہوئے میں نے سوچا کہ میں تو منفی سوچ کی طرف جارہا ہوں اس لیے ادھرہی وی پی این آن کیا اور سوچ کو پازیٹو موڈ پر ڈال دیا ۔
میرا دوسرا خیال یہ تھا کہ کہیں سے الہ دین کا چراغ مل جائے،لیکن یار یہ سوچ ہی آتی ہے کسی کو کبھی ملا تو ہے نہیں ، اس کے بعد ایک اور خیال آیا کہ کہ چلو کسی نیک بندے کی گندی ویڈیو بنا لوں ۔بس فون اٹھاوں اور ڈائل کروں کہ
بھائی صاحب ملکی حالات بہتر کریں
پھر معشیت کی ٹانگ نہ کھینچنے کا آرڈر کروں
پھر تعلیم کے شعبے کے لیے کچھ آرڈر پاس کراوں
اسمگلنگ روکنے کا آرڈر پاس کروں
لیکن پھر وی پی این کا ٹائم آوٹ ہو گیا،اور اصلی سوچ آئی کہ ادھر چل کیا رہا ،اصل میں ہمارے پاک وطن کے پاک لوگ اور سیاستدان بس یہ سوچ رہے ہیں کہ مخالف سیاست دان کی جعلی اور گندی ویڈیو کب اور کیسے بناؤں ؟کیسے بناوں؟
اور آدھی عوام ویڈیوز کے میں بیٹھی ہوئی ہے کہ کب نیا کلپ وائرل ہوجائے ۔ یوں میڈیا کو بھی مغز ماری کا سامان مہیا ہوتا ہے اور عام آدمی بھی چپ کے چپ کے کچھ نا کچھ دیکھ ہی لیتے ہیں ۔ یوں تھوڑی دیر ہی سہی کچھ وقت کیلئے مسائل حل ہوجاتے ہیں