
سنہ انیس سو اکتیس میں ڈوگرہ راج کیخلاف 22 کشمیریوں نے جام شہادت نوش کیا
تحریر: محمد اقبال میر
کچھ تاریخیں صرف کیلنڈر پر نشان نہیں ہوتیں، وہ قوموں کی روح میں گندھی ہوئی ہوتی ہیں۔ 13 جولائی 1931ء بھی ایک ایسا ہی دن ہے، جب سری نگر سنٹرل جیل کے احاطے میں ایک اذان کی تکمیل کے دوران 22 کشمیریوں نے جام شہادت نوش کیا۔ وہ اذان مکمل ہوئی، مگر وہ دن تاریخ میں ادھورا نہ رہا — بلکہ مزاحمت کی ایک لافانی داستان بن گیا۔
اسی دن کی یاد میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے زیر اہتمام دارالحکومت مظفرآباد کے ڈسٹرکٹ کمپلیکس میں ایک پر وقار تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ یوم شہداء کشمیر کے اس موقع پر جہاں خراج عقیدت پیش کیا گیا، وہاں عہد کی تجدید بھی کی گئی کہ آزادی کی اس تحریک کو کسی صورت کمزور نہ ہونے دیا جائے گا۔
تقریب میں سپیکر اسمبلی چوہدری لطیف اکبر، سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان، حریت کانفرنس کے کنونیئر، غلام محمد صفی، سابق کنونیئر حریت کانفرنس سید یوسف نسیم، وزیر حکومت چوہدری محمد رشید، جنرل سیکریٹری حریت کانفرنس ایڈووکیٹ پرویز احمد،حریت کانفرنس کے سینئر رہنماؤں زاہد اشرف، شیخ یعقوب، عبدالمجید میر، نذیر کرناہی، امیر مجلس شوریٰ مہاجرین جموں وکشمیر ڈاکٹر محمد یونس میر، میئرمیونسپل کارپوریشن سکندر گیلانی، جمیل افغانی،پاسبان حریت کے چیئرمین عزیر احمد غزالی، غلام حسن بٹ، پی پی رہنما شوکت جاوید میر، مسلم کانفرنسی رہنما راجہ ثاقب مجید، جموں وکشمیر پیپلزپارٹی کے رہنماآصف گیلانی، جماعت اسلامی کے راجہ آفتاب، مہاجرین رہنما چوہدری فیروز دین، سید حمزہ شاہین،سرانداز میر، محمد صدیق داؤد، ماہر تعلیم نشاد احمد بٹ، قاری بلال فاروقی، عثمان اعوان سمیت چیئرمین یونین کونسل اقبال اعوان، کونسلرز اقبال میر، اقبال بٹ ، حامد جمیل، فیاض جگوال، مہاجرین کے نوجوان رہنماؤں اسلم انقلابی، عامر عباسی، اشتیاق اعوان، تنویر درانی، منیر کونشی سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی۔ اس موقع پر اسٹیج سیکرٹری کے فرائض ایڈووکیٹ پرویز نے سرانجام دیے، جبکہ سیکریٹری اطلاعات مشتاق بٹ،محمود شاہ، تنظیر اقبال نے مہمانوں کی میزبانی اور انتظامات میں مرکزی کردار ادا کیا۔
یہ تقریب نہ صرف منظم تھی بلکہ اس کا مقصد واضح، مدلل اور پُرجوش تھا: شہداء کے لہو کو سلام، اور تحریکِ آزادی کی بقا کا عہد۔
یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اذان کی صدا پر لبیک کہنے والے یہ 22 نوجوان محض افراد نہ تھے بلکہ نظریے کی گواہی تھے۔ ان کے بعد بھی جب بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضہ جمایا، تو اسی نظریے نے سینکڑوں، ہزاروں کشمیریوں کو سڑکوں پر، قید خانوں میں، عقوبت گاہوں میں اور میدانِ جنگ میں مزاحمت کی راہ دکھائی۔
عوام کے تمام مسائل اور مصائب نے مسئلہ کشمیر کی کوکھ سے جنم لیا ہے: نذیر احمد قریشی
حریت کانفرنس کے قائدین نے ایک بار پھر دہرا دیا کہ آزادی کی جدوجہد بھارت کے خلاف اور پاکستان سے الحاق کے لیے جاری رہے گی۔ عوام نے گرمی کی شدت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کشمیر اور پاکستان کے پرچم اٹھا کر شرکت کی، اور ریلی کی صورت میں شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ یہ مظاہرہ نہ صرف ایک تقریبی سرگرمی تھا بلکہ یہ واضح پیغام تھا: کشمیری آج بھی اپنے شہداء سے وفا کا رشتہ نبھا رہے ہیں، اور ہر محاذ پر سینہ سپر ہیں۔
تاہم اس موقع پر کچھ اہم پہلو بھی توجہ کے طالب ہیں۔ وزیر حکومت چوہدری محمد رشید کی شرکت قابل تحسین ہے، مگر مظفرآباد جیسے دارالحکومت میں، جہاں اس تحریک کی علامتی اور عملی بنیاد رکھی گئی، وہاں مقامی حلقوں سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کی غیر حاضری لمحہ فکریہ ہے۔ اگر بیس کیمپ اپنی معنویت برقرار رکھنا چاہتا ہے، تو اسے صرف زبانی دعووں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے خود کو ثابت کرنا ہوگا۔
نوے کی دہائی میں مقبوضہ کشمیر سے آئے مہاجرین آج بھی بیس کیمپ کی نگاہوں میں امید بن کر دیکھتے ہیں۔ ان مہاجرین کے زخموں پر مرہم رکھنا، ان کی آواز کو عالمی سطح پر بلند کرنا، اور ان کے حقوق کی پاسداری بیس کیمپ کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ جس طرح اُس وقت یہاں کے باسیوں نے دل کھول کر محبت کا مظاہرہ کیا،مہاجرین نے بھی فراموش نہیں کیا، لیکن بیس کیمپ کی حکومتی عدم توجہ سوالیہ نشان بنتی جارہی ہے۔
19 جولائی کا دن — یومِ قرارداد الحاقِ پاکستان — بھی قریب ہے۔ یہ موقع تقاضا کرتا ہے کہ ایک بڑی، بامقصد اور مشترکہ تقریب کا انعقاد کیا جائے، جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی بھرپور نمائندگی ہو۔ پاکستان کشمیریوں کا وکیل ہے، اور کشمیری پاکستان کو اپنی منزل سمجھتے ہیں۔ اس رشتے کو زندہ رکھنے کے لیے بیس کیمپ کو مزید متحرک اور فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔
دنیا کو یہ بار بار یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ بھارت سے آزادی اور پاکستان سے الحاق کشمیریوں کا دیرینہ خواب ہے، اور اس خواب کی تعبیر کے لیے وہ کوئی بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کریں گے۔ شہداء کی لاشوں سے بننے والے راستے پر اگر آج بھی لوگوں کا ہجوم موجود ہے، تو یقین رکھیے کہ یہ قافلہ رکے گا نہیں — جب تک منزل نہ آ جائے۔