

تحریر۔۔۔۔ مقصود منتظر
آج وفا نازاں ہے۔۔ محبت رقصاں ہے ۔۔ عشق جھوم رہا ہے کیونکہ آج چشم فلک نے قاتلوں کو مقتول کے سامنے بے بس دیکھا ہے۔ ایک نہتی اور کمزور لڑکی کے سامنے طاقت ور بندوق برداروں کی موت دیکھی ہے اور تو اور نام نہاد غیرت کا لبادہ پارہ پارہ ہوتے دیکھا ہے ۔۔ چشم فلک و خلق گواہی دے رہے ہیں کہ یہ شیتل کی نہیں ،بلوچستان کی قوم کی پگڑی کی موت ہے۔
مقتل کی طرف اٹھائے گئے شیتل کے وہ ۔۔ دو قدم ۔۔۔ وہ ایک دو گز کا فاصلہ ۔۔ وہ بے وقت کی گھڑی ۔۔ منحوس رسم کی ادائیگی ۔۔۔ وہ بے بس صحرا ۔۔ بے جان چٹانیں ۔ تپتی ریت ۔ وہ اداس منظر۔۔۔ نہیں دیکھا جاتا ۔ بخدا نہیں دیکھا جاتا ۔۔۔
یقین کریں آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ، دل میں تلاطم ، روح میں بے چینی ہے۔۔ جسم میں عجیب خلل پیدا ہورہی ہے اور دماغ سن ہورہا ہے۔۔
ہزاروں میل دور بلوچستان اور اس کی بیٹی شیتل سے نہ خون کا رشتہ ہے نہ ہی اس اداس واقعہ سے کوئی نفع نقصان کا غرض ۔۔ پھر بھی نہ جانے کیوں مظلوم اپنے اپنے سے لگ رہے ہیں۔ گولی اُدھر چلی ۔۔ نہ جانے جگر ادھر کیوں چھلنی ہورہاہے۔ کسی کی روح اُدھر نکلی ۔۔۔ مگر جان ادھر لٹک گئی ۔۔۔۔ خون اُدھر بہا ۔۔۔۔ پر درد ادھر ہورہا ہے ۔ معلوم نہیں کیوں ؟؟؟ جواب میرے پاس نہیں ہے ۔۔ وجہ معلوم ہے نہ سبب جانتا ہوں۔۔۔۔!!
وفا کا مجسم شیتل اپنا پلو سنبھالے اور چادر درست کرتے ہوئے پورے وقار کے ساتھ مقتل گاہ میں خود چل کرجاتی ہے ۔ شوہر کی موت کے بعد وہ اپنے حصے کی گولیوں کا انتظار کرنے لگتی ہے ۔ اس دوران وہ ذرا سا بھی نہیں گڑگڑاتی ہے، نہ پیچھے مڑتی ہے اور نہ کسی کے پاؤں پکڑتی ہے ۔ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ ان لوگوں کی مردانگی کی تسکین اس کے خون سے کم کسی چیز سے ممکن نہیں۔

وہ غیرت کا مجسمہ تھی تب ہی تو اس کے لبوں پر آخر اعلان بہت ہی بلند و بے وقار تھا ۔۔
سم ائنا اجازت اے نمے پین ہچ اف”
یعنی صرف گولی کی اجازت ہے اسکے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔ شیتل یہ جملہ ادا کرکے امر ہوگئی۔
بتایا جارہا ہے کہ شیتل نے قران پاک ہاتھ میں تھام کر مقتل میں قدم رکھا ۔۔۔ اس وقت قاتل بھی ضرور یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ضرور پیچھے مڑ کو زندگی کی بھیک مانگے گی ۔۔ لیکن چٹان جتنی مضبوط شیتل نے سب کی سوچوں کو ۔۔ تھُو ۔۔ مار دیا ۔
ایک منٹ سے کم وقت کی یہ ویڈیو دیکھ کر لڑکی کی بے بسی اور قاتلوں کی سفاکی دیکھ کر چشم فلک بھی روئی ہوگی ۔ خدا سے یہ شکایت بھی لگائی ہوگی کہ عورت کو اس جہاں میں بھلا کیوں پیدا کیا ؟؟؟ فرشتوں نے بھی یہ جملے دہرایا ہوگا ۔۔۔ یہ انسان تو خون خرابہ کرے گا۔۔؟؟
لیکن ان شکایات کا شاید جواب یوں ملا ہوگا ۔۔۔۔
ارے نادانو۔۔۔۔ شیتل تھوڑی مری ہے ۔۔۔ موت تو بد بختوں کی ہوئی ہے۔۔۔
ذرا دیکھو تو ۔۔۔ قتل گاہ تو خوش نہیں اداس ہے ۔۔
سنو تو ۔۔۔ نئی مقتل کی نوحا ۔۔۔ لہو سے تر مٹی کی فریاد۔۔۔ ہوا کی اداسی اور ماحول کی بے کسی ،،
سنو ۔۔۔۔۔
آج شیتل کی موت نہیں ہوئی۔۔۔ وہ وفا کی نئی دلیل بن گئی ۔۔۔ جب کوئی عہد و پیماں کی بات ہوگی ، تو شیتل کو گواہ بنایا جائے ۔۔۔۔ جب پیار محبت کے قصے بیان ہوں گے تو شیتل زرگ کا قصہ سر فہرست ہوگا ۔۔۔ جب عشق کا ذکر ہوگا ۔۔۔ تو بلوچستان کے ریگزاروں اور صحراوں میں وفا کا نام اونچا کرنے والی شیتل کو مرشد مانا جائے گا ۔۔ جب غیرت کی مثال دی جائے گی تو شیتل کا ہی آخری اعلان گونجے گا۔۔۔۔ جب حوصلوں کا موضوع آئے گا تو بلوچستان کی اسی بہادر بیٹی کے حوصلہ سے لوگوں کے حوصلوں بلند ہوں گے ۔۔۔ اور تو ۔۔ جب حرمت اور پاکیزگی کا تذکرہ ہوگا تو ۔۔۔ اس وقت بھی شیتل کا یہ جملے ذہنوں اور زبانوں پر رواں ہوگا ۔۔۔۔
سم ائنا اجازت اے نمے پین ہچ اف
یعنی صرف گولی کی اجازت ہے اسکے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔ شیتل یہ جملہ ادا کرکے امر ہوگئی۔