آزاد کشمیر میں سیاسی تبدیلیاں
تحریر: محمد اقبال میر
آزادکشمیر کی سیاست میں ایک وقت وہ بھی تھا جب نظریہ، جدوجہد اور قربانی تین ایسے ستون تھے جن پر پوری سیاسی عمارت کھڑی تھی۔ ہر کارکن اپنے قائد کی آواز تھا اور ہر قائد اپنے کارکن کی امید۔ جلسوں میں صرف نعرے نہیں لگتے تھے، خواب بکتے تھے، اور ان خوابوں کو حقیقت بنانے کا جنون لوگوں کو گھروں سے نکالتا تھا۔
مگر یہ سب اب ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔ آج آزادکشمیر کی سیاست میں نہ نظریہ بچا ہے، نہ کارکن، اور نہ وہ عوامی تڑپ جو کسی سیاسی تحریک کی جان ہوتی ہے۔ اب صرف شخصیات ہیں، مفادات ہیں، اقتدار کے سودے ہیں اور پارٹیوں کے اندرونی کھیل۔
سیاست، جو عوامی خدمت کا راستہ ہوا کرتی تھی، اب ذاتی مفادات کی چراگاہ بن چکی ہے۔ پارٹیوں کی وفاداریاں چہروں کی بنیاد پر طے ہو رہی ہیں۔ نظریاتی کارکن پس منظر میں دھکیل دیے گئے ہیں اور سامنے وہ لوگ لائے جا رہے ہیں جو سرمایہ، سفارش یا طاقت کے بل پر اقتدار تک پہنچنا چاہتے ہیں۔
پیپلزپارٹی، جو کبھی مزدور اور کسان کا ترجمان کہلاتی تھی، 2006 کے بعد مفاہمتی سیاست کی راہوں پر چل پڑی۔ کارکن جنہوں نے سالوں پارٹی کے لیے قربانیاں دیں وہ ایک ایک کر کے کنارے لگتے گئے۔
2011 میں مظفرآباد کی جس نشست پر پیپلزپارٹی کا جھنڈا لہرانا تھا چونکہ عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو برتری حاصل تھی ضمنی الیکشن میں کامیابی بھی یقینی تھی ، وہاں مفاہمتی اتحاد کے تحت مسلم کانفرنس کے عثمان عتیق کو آگے لایا گیا۔ جیتی ہوئی نشست ہار میں تبدیل ہوگئی یہ شکست محض انتخابی نہیں تھی، بلکہ نظریاتی تھی۔ اس فیصلے نے کارکنان کے دل توڑ دیئے تھے۔
حلقہ دو مظفرآباد میں بھی نظریاتی کارکنوں کے ساتھ کھلی ناانصافی ہوئی۔ 2016میں مسلم لیگ ن کے وفادار اور دیرینہ کارکن جواد گیلانی اور امداد طارق کو نظر انداز کر کے چوہدری شہزاد کو ٹکٹ دیا گیا۔
کارکنوں نے جماعت کا بھرم رکھنے کو سر جھکا لیا، ووٹ دیا، مگر دل زخمی رہے۔2021 میں وہی شہزاد تحریک انصاف کے ٹکٹ پر میدان میں آ گئے، اور پھر اقتدار کی بساط پر مفادات کا کھیل کھیل گئے۔اُدھر مرتضیٰ گیلانی نے بغاوت کی، ن لیگ میں شامل ہوئے اور لیگی قیادت نے انھیں گلے لگا کر ٹکٹ جاری کردیا پارٹی کارکنوں کو پھر سے مایوس کردیا۔
تحریک انصاف جس نے ”نیا پاکستان” کا نعرہ دیا، آزادکشمیر میں بھی بڑی امید کے ساتھ آئی۔ لیکن 2021 کے انتخابات میں بیشتر ٹکٹ اُن چہروں کو دیے گئے جو نہ پارٹی کے نظریے سے واقف تھے نہ اس کے مشن سے۔ اقتدار ملا، مگر اقتدار نے اتحاد کو نگل لیا۔جب وقت آیا تو پارٹی کے اکثریتی منتخب ارکان نے مفادات کو نظریے پر ترجیح دی۔ وفاداریاں تبدیل ہوئیں، حکومت کا نقشہ بدلا اور ”نیا چہرہ” وہی پرانی روش پر چل پڑا۔

آج آزادکشمیر میں نظریہ محض ایک قصہ ہے۔ منشور کی جگہ مفادات کا راج ہے۔ ترقیاتی منصوبے اعلانوں میں زندہ رہتے ہیں، زمین پر ان کی قبریں کھودی جا چکی ہیں۔حکومتیں آتی ہیں، وعدے کیے جاتے ہیں، مگر عام آدمی کے لیے نہ تعلیم بہتر ہوتی ہے، نہ صحت، نہ روزگار۔مخلوط حکومت ہو یا اکثریتی، سب عوامی خدمت کے بجائے اقتدار کے تحفظ میں مگن دکھائی دیتی ہیں۔
ریاست جموں و کشمیر کا مسئلہ جس پر آزادکشمیر کی سیاست کو مرکوز ہونا چاہیے تھا، اب صرف تقاریر کی زینت بن کر رہ گیا ہے۔ایوانوں میں تالیاں ضرور بجتی ہیں، قراردادیں منظور ہوتی ہیں اور بس۔۔۔۔
وہ مہاجرین جنہوں نے پاکستان سے وفاداری کی قیمت اپنا وطن چھوڑ کر ادا کی، آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔2022 میں حکومت پاکستان کی جانب سے مہاجرین کے لیے جاری فنڈز آج تک زمین پر 10 فیصد بھی خرچ نہ ہو سکے۔نہ گزارہ الاؤنس میں اضافہ ہوا، نہ گھروں کی تعمیر مکمل ہو سکی۔ ہر حکومت ان کے نام پر ووٹ لیتی ہے، مگر ان کے مسائل وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی یہ کوئی سیاسی جماعت نہیں، مگر آج عوام کی نظریں اسی پر جمی ہیں۔جب جماعتیں نظریہ چھوڑ دیں، جب کارکن نظر انداز ہوں، جب وعدے جھوٹے ہوں، تو عوام کو آخر آواز اٹھانا پڑتی ہے۔اسی لیے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی اب صرف احتجاج نہیں، بلکہ سوال ہے تمام سیاسی جماعتوں کے لیے۔
ہندوستان ان عوامی آوازوں کو پاکستان مخالف رنگ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر آزادکشمیر کی رگ رگ میں پاکستان بستا ہے۔یہ احتجاج پاکستان کے خلاف نہیں، مقامی بدانتظامی، مفاد پرستی اور سیاسی سودے بازی کے خلاف ہے۔
پیپلزپارٹی کے نظریاتی کارکنوں نے راولاکوٹ میں ایک جرگے کی صورت میں قیادت کو پیغام دیا:پیراشوٹ کلچر ختم کرو، منشور کی طرف واپس آؤ، سرمایہ دارانہ سیاست کو مسترد کرو۔یہ چیخ تھی اس خاموش اکثریت کی جو ابھی زندہ ہے، صرف نظرانداز کی جا رہی ہے اور اب یہ جرگہ احتجاج کی طرف جارہاہے اور دائرہ کار بڑھایا جارہاہے۔
چوہدری یاسین، لطیف اکبر، فیصل راٹھور، قمر زمان اور سردار یعقوب سب اپنی اپنی راہوں پر۔چوہدری ریاض جوڑ توڑ میں مشغول۔ کارکن سوال کر رہا ہے: کیا ہم صرف فٹبال ہیں، جسے کوئی بھی آ کر لات مار دے؟
مسلم لیگ ن کے صدر خود اعتراف کرتے ہیں کہ آزادکشمیر میں مخلوط حکومت جماعتی بنیادوں پر نہیں ہے اراکین اسمبلی کی حکومت ہے۔ تو پھر جماعت اور کارکن کے رشتے کا جنازہ تو نکلے گا نا؟
اگر آزادکشمیر کی سیاست واقعی عوامی اعتماد بحال کرنا چاہتی ہے تو ایک ہی راستہ ہے —
پارٹیوں کو چاہیے کہ وہ مفادات، رشتہ داریوں اور شخصیات کی غلامی چھوڑیں، اور اصل نظریاتی کارکن کو جگہ دیں۔
ورنہ یہ سورج —ہمیشہ سوا نیزے پر ہی رہے گا —اور شاید کبھی غروب نہ ہو، صرف جلاتا رہے۔