کشمیر کی ماں کا بیٹے کی خاطر350 کلو میٹر پیدل سفر
تحریر۔۔۔ مختار بابا
وادی کشمیر کی ایک بزرگ خاتون کے پاس نہ سواری، نہ سہارا، نہ کوئی در کھٹکھٹانے کو رہ گیا۔ جموں کے کوٹ بھلوال جیل میں اس کا بیٹا بیمار پڑا ہے وہ بیٹا جو کبھی اس کے گھر کی رونق تھا، آج پابندِ سلاسل ہے۔ گھروں میں بچے رو رہے ہیں،
اور وہ ماں۔۔ 350 کلو میٹر کا سفر پیدل اس امید پر طے کر رہی ہے کہ شاید جیل کی اونچی دیواروں کے پیچھے اس کے بیمار بیٹے کی سسکیوں تک اس کی آواز پہنچ جائے۔ کشمیر کے پہاڑ اس کے قدموں کی چاپ سن رہے ہیں، راستوں کی گرد اس کے آنسوؤں میں مل رہی ہے، اور وہ ہر قدم پر ایک سوال دہرا رہی ہے
کیا اس ملک میں ماں ہونا بھی جرم بن گیا ہے؟
یہ ماتم صرف اس ایک ماں کا نہیں۔ یہ ان تمام ماؤں کا ماتم ہے جن کے بیٹوں کو بیمار چھوڑ کر زندانوں میں سڑنے دیا جا رہا ہے، جن کے درد پر صاحب اختیار کے محلات کی کھڑکیوں میں کوئی چراغ نہیں ٹمٹماتا، جن کی آہوں سے ان کی سنگ مرمر سے بنی دیواریں کانپتی تک نہیں۔
اربابِ اختیار
اپنی نیندوں میں ذرا خلل ڈال کر سوچو وہ ماں جو پتھریلےپہاڑوں ، وادیوں اور شاہراہوں کو چیر کر چل رہی ہے، اس کے ہر قدم میں تمہارے منصب کی گواہی ہے، اور تمہاری غفلت کا نوحہ۔
کیا تمہارے بستروں کے نرم گدے اس کی پیاسے قدموں کی سنسناہٹ تک محسوس نہیں کرتے؟
کیا تمہاری گاڑیوں کے سیاہ شیشوں سے اس ماں کی تھکن کی لرزش نظر نہیں آتی؟
کیا تمہارے ضمیر کی ڈائری میں ایک صفحہ بھی ایسا نہیں جس پر لکھا ہو کہ انسان کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے۔
ماں اپنے بیمار بیٹے سے ملنے نہیں جا رہی یہ تمہارے انسانیت بُجھا دینے والے "نظام” کے کند چہرے پر سوال لکھنے جا رہی ہے۔
350 کلو میٹر پیدل
ہر قدم پر ایک الزام،
ہر سانس میں ایک احتجاج،
ہر آنسو میں ایک فیصلہ
کہ ظلم کرنے والے سے بڑا جرم ظلم سہنے والے پر خاموش رہنے والوں کا ہے۔
اربابِ اختیار!
تم چاہو یا نہ چاہو، اس ماں کے پاؤں کے چھالے تمہارے ضمیروں پر نقش ہو چکے ہیں۔ اور وہ دن دور نہیں جب تاریخ تمہارے عیش و آرام کے محلات پر یہ لکھے گی
یہ وہ لوگ تھے جو منصب پر بیٹھے مگر انسانیت سے اتر چکے تھے۔
یہ ماتم اس ماں کا نہیں،
یہ ماتم تمہاری مردہ ذمہ داریوں کا ہے۔
یہ صرف ایک ماں کی کہانی نہیں،بلکہ اس "نظام” کے چہرے پر کالک ہے جس نے ظلم کو قانون، غفلت کو روایت، اور بےحسی کو”سلطنت” بنا رکھا ہے۔
کشمیر کی یہ ماں… جس کا بیٹا کوٹ بھلوال کی فولادی دیواروں کے پیچھے بیمار پڑا ہے وہ بیٹا جسے جیلوں کی سڑتی ہوئی نمی نے نگل لیا،
اور جس کے معصوم بچے ہر رات اس امید پر سوتے ہیں کہ شاید کل ان کے باپ کی کوئی خبر ملے۔
اور یہ ماں…جو 350 کلو میٹر پیدل چل رہی ہے۔
صرف ایک ماں نہیں، ایک زندہ استغاثہ ہے۔
اس کے ہر قدم میں ایک لعنت لکھی ہے
ان صاحب اختیار کے ماتھے پر جو اپنے محلات میں شا ہانہ ناشتے کھاتے ہوئے ایک ماں کے 350 کلومیٹر کے پیدل نوحے کو بھی نہیں سنتے۔
اربابِ اختیار سنو!
تمہاری کرسیوں کے نیچے وہ ماں کا درد دہکتا انگارہ بن کر پڑا ہے۔ تمہاری ائیر کنڈیشنڈ گاڑیوں کی کھڑکیوں پر اس کی سانسوں کی دھند اتر چکی ہے۔ تمہارے نرم بستروں کی جھاگ میں اس کے قدموں کے چھالوں کا درد دب چکا ہے۔
مگر تم بےحس لوگ ہو۔۔
مرے ہوئے ضمیروں والے لوگ۔
تمہارے منصب
تمہارا اختیار
تمہارے دعوے
سب اس وقت ننگے کھڑے ہیں
جب ایک مجبور ماں کو اپنے بیمار بیٹے تک پہنچنے کے لیےہزاروں قدم اپنے زخموں سے اٹھانے پڑ رہے ہیں۔ تمہارے اقتدار کی دیواروں پر یہ سوال کھڑا ہو چکا ہے اگر ایک ماں کو 350 کلو میٹر پیدل چل کر جیل تک جانا پڑے،
تو تم کس چیز کے محافظ ہو؟
منصب کے، یا اپنی بےشرمی کے؟
کشمیر سے جموں تک اس ماں کے قدم صرف راستہ نہیں چیر رہے وہ تمہارے نظام کے سینے میں سلاخیں گاڑ رہے ہیں۔ ہر میل تمہارے رتبوں پر تھوک ہے۔
یاد رکھو!
یہ ماں جب اپنے بیٹے کی جیل کے دروازے تک پہنچے گی، تو وہ صرف ایک ماں نہیں ہوگی،
وہ پورے کشمیر کی اجتماعی عدالت ہوگی۔
وہ عدالت جس میں تم سب مجرم ہو،
اور تاریخ جس کا انتقام لینا نہیں بھولتی۔
یہ بیانیہ ماتم نہیں
تم ۔۔۔ پر فردِ جرم ہے۔