
تحریر: عبید بن راشد وانی

کشمیر ایک ایسی سرزمین ہے جس کی تاریخ قربانیوں، جدوجہد اور حریت سے بھری پڑی ہے۔ یہاں کے عوام بالخصوص نوجوانوں نے ظلم و جبر کے خلاف جدو جہد کی اور ظالم کیخلاف سینہ سپر ہوئے ۔ اس جدوجہد کی پاداش میں انہیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں اور بیشتر تو جان کا نذرانہ بھی پیش کرتے ہوئے آزادی کی تحریک کو آبیاری کرتے رہے ۔ مگر اس ساری قربانی کے باوجود ہم آج بھی منزل سے دور ہیں۔ ہمالیہ جیسی قربانیوں اور طویل جدوجہد کے باوجود کشمیری اپنی منزل سے دور کیوں ہیں ؟
اس سوال کا سب سے بڑا سبب ایک تلخ حقیقت ہے جس کا سامنا ہم کرنے سے کتراتے ہیں — ہماری نااتفاقی، حسد، اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بیماری۔ یاد رہے قومیں دشمن کے ہاتھوں نہیں، اندرونی کمزوریوں سے مرتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی قوم اگر متحد ہو، تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ مگر جو قومیں اندر سے تقسیم ہوں، وہ دشمن کے بغیر ہی شکست کھا جاتی ہیں۔
بدقسمتی سے کشمیری قوم بھی اسی المیے کا شکار ہے۔ ہم دشمن سے پہلے اپنے بھائی پر شک کرتے ہیں، اپنی قیادت پر انگلی اٹھاتے ہیں، اور حق پرستوں کو نیچا دکھانے میں اتنی محنت کرتے ہیں جتنی کاز کے لیے نہیں کرتے۔

قیادت پر سوال، کارکنوں پر بہتان
آج کشمیری قوم قیادت نہ ہونے کا رونا رو رہی ہے ۔ اس کی وجہ بھی ہم ہی ہیں ۔ کیونکہ ہم نے اپنی صفوں میں موجود حقیقی اور مخلص قیادت کو دشمن سے زیادہ خود کمزور کیا، انہیں تنہا چھوڑا، ان کی کردار کشی کی، اور ان کے خلاف دشمن کے پروپیگنڈے کا شکار بنے۔ ایسے افراد جو اپنی جوانی، صحت، خاندان، یہاں تک کہ جان قربان کر گئے، ان پر بھی الزامات لگائے گئے۔ یہی رویہ ہمارے کارکنوں کے ساتھ بھی روا رکھا گیا، جنہوں نے بغیر کسی لالچ کے صرف قوم کی خاطر قربانیاں دیں۔
آنے والی نسلوں کو کیا دیں گے؟
آج سوال یہ نہیں کہ ہم نے کیا کھویا یا پایا، بلکہ اصل سوال یہ ہے، ہم آنے والی نسل کو کیا ورثہ دیں گے؟ کیا ہم نفرت، تقسیم اور نفاق دے کر جائیں گے؟
کیا ہمارے بچے یہ سیکھیں گے کہ دشمن سے لڑنے کے بجائے اپنے بھائی کو نیچا دکھانا زیادہ ضروری ہے؟ کیا ہم یہ بتائیں گے کہ ہم ایک قوم ہوتے ہوئے بھی ایک منشور، ایک قیادت اور ایک مقصد پر متفق نہ ہو سکے؟
اب بھی وقت ہے! ہمیں اب جاگنا ہوگا۔ اپنے ماضی سے سیکھنا ہوگا۔ جنہوں نے قربانیاں دیں، ان کے خوابوں کو پورا کرنا ہوگا۔ قیادت، جماعت، اور نظریے سے بالاتر ہو کر تحریک اور قوم کو مقدم رکھنا ہوگا۔
یاد رکھیں ، قومیں اس وقت مرتی ہیں جب وہ حق کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے نفس اور انا کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں۔اگر ہم نے آج بھی اتحاد کا راستہ نہ اپنایا تو کل ہماری کہانی صرف نصاب کی ایک عبرت بن کر رہ جائے گی۔ اور ہماری نسلیں ہمیں صرف افسوس سے یاد کریں