
بھارتی فوج نے آپریشن سندور کے بعد آپریشن مہا دیو شروع کردیا
تحریر: محمد اقبال میر
کچھ دکھ ایسے ہوتے ہیں جن کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا۔ کچھ قربانیاں ایسی ہوتی ہیں جن پر نہ کوئی سرکاری سند جاری ہوتی ہے، نہ ہی کسی اسمبلی میں ان پر قرارداد آتی ہے۔ اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو پوری تاریخ کا بوجھ اپنی پیٹھ پر لیے زندہ رہتے ہیں، خاموش، لیکن سراپا احتجاج۔ مہاجرینِ کشمیر انہی لوگوں میں سے ہیں۔
بھارت نے ایک بار پھر اپنے گھسے پٹے منصوبوں میں نیا غلاف چڑھا کر ”آپریشن مہادیو” کے نام سے مقبوضہ کشمیر میں ایک اور خوفناک کھیل شروع کیا ہے۔ یہ آپریشن محض تین نوجوانوں کو "دہشت گرد” قرار دے کر مارنے تک محدود نہیں، بلکہ ایک مکمل منصوبہ ہے — تحریکِ آزادی کشمیر کو بدنام کرنے، پاکستان کو عالمی محاذ پر الجھانے اور مہاجرین کو ذہنی، نفسیاتی اور سماجی طور پر غیر مستحکم کرنے کا۔ اس آپریشن کی سب سے تکلیف دہ کڑی وہ خبریں ہیں جو مقبوضہ کشمیر سے آ رہی ہیں کہ بھارت مہاجرین کے چھوڑے گئے گھروں، زمینوں اور املاک کو باقاعدہ ضبط کر رہا ہے۔ یہ قبضے صرف مکانوں پر نہیں، نظریے اور شناخت پر ہیں۔
جو لوگ 90 کی دہائی میں بھارتی بربریت سے تنگ آ کر یہاں آ بسے، خیموں، بستیوں اور تنگ گلیوں میں پناہ لی، آج ان کے لیے ایک اور امتحان کھڑا ہو چکا ہے۔ نہ وہ اپنی سرزمین پر واپس جا سکتے ہیں، نہ یہاں مکمل تحفظ اور احترام محسوس کرتے ہیں۔
کشمیر کی آزادی سے ہی مضبوط اور مستحکم پاکستان کا خواب پورا ہوگا ،نذیر قریشی
بدقسمتی سے آزادکشمیر کی حکومت جو خود کو تحریکِ آزادی کا بیس کیمپ قرار دیتی ہے، اس آزمائش میں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ وہ مہاجرین جنہوں نے آزادی کی شمع کو زندہ رکھنے کیلئے سب کچھ قربان کیا، آج ان کے لیے گلی کی مرمت، سیوریج کی لائن، یا ایک ہسپتال کی سہولت بھی خواب بنتی جا رہی ہے۔
ایسا لگتا ہے جیسے ان کی قسمت صرف انتخابی جلسوں میں جذباتی نعروں، اور اسمبلی اجلاسوں میں تصویری تعزیتی قراردادوں تک محدود ہو گئی ہے۔
مگر سچ یہ ہے کہ پاکستان کا دل آج بھی کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ پاکستان، ایک نظریہ، ایک خواب، اور ایک وعدہ ہے۔ وہ وعدہ جو کشمیری مہاجرین ہر قربانی دے کر پورا کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی ریاست، اس کی افواج، اس کے عوام، سب کشمیریوں کے دکھ درد کو محسوس کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے بیس کیمپ کی حکومت سب اچھا ہے کی رپورٹ پیش کر کے حقائق پر پردہ ڈالا جارہا ہے۔
پاکستان کے لیے خیمہ بستیوں کی گلیوں کی مرمت، سیوریج سسٹم، یا بچوں کی تعلیم کے لیے فنڈز مہیا کرنا مسئلہ نہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ یہاں کے حکمران ان مسائل کو مسئلہ سمجھتے ہی نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ: حکومتِ پاکستان ان مہاجرین کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے براہ راست اقدامات کرے۔
ایسے ماڈل کیمپ قائم کیے جائیں جہاں تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولیات دستیاب ہوں۔
متاثرہ خاندانوں کی باعزت آبادکاری کے لیے پنجاب اور خیبرپختونخوا جیسے قریبی علاقوں میں رہائشی مواقع فراہم کیے جائیں۔
ان اقدامات سے نہ صرف مہاجرین کی مشکلات کم ہوں گی بلکہ مقبوضہ کشمیر میں ایک مثبت پیغام جائے گا کہ پاکستان اپنے ان لوگوں کو نہیں بھولا جنہوں نے اُس کے نام پر سب کچھ قربان کیا۔
یہ وقت ہے خوابوں کو حقیقت بنانے کا، مہاجرین کو بیس کیمپ کی تقریروں کا حصہ بنانے سے نکال کر ریاستی ترجیح بنائے جانے کا۔ کیونکہ جب بیس کیمپ اپنی بنیاد کو فراموش کر دے تو قلعہ گرنے میں دیر نہیں لگتی۔