
تجزیہ ۔۔۔ سہیل احمد ڈار
ہم بحثیت مہاجرین اس وقت جس معاشی، سیاسی، سماجی اور کاروباری بحران کا سامنا کر رہین ہیں، اس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ وہ قیادت ہے جو بظاہر نمائندگی کا دعویٰ تو کرتی ہے، مگر حقیقت میں محض مفادات کے تحفظ اور ذاتی فائدے کی جنگ لڑ رہی ہے۔
اگر ہم انصاف، اعتدال اور غیر جانبداری سے تجزیہ کریں تو یہ حقیقت کسی پردے میں نہیں رہتی کہ جو افراد خود کو ہمارے مسائل کے "علمبردار” کہتے ہیں، اُن کے لیے عوامی مسائل ایک مشن نہیں، بلکہ ایک مستقل ذریعہ معاش ہیں۔ چونکہ انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی پیشہ، مزدوری، یا باضابطہ محنت کا کام اختیار نہیں کیا، اس لیے قیادت اور نمائندگی ہی ان کا واحد پیشہ بن چکی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب ان سے سوال کیا جائے، جواب دینے کے بجائے وہ برا مناتے ہیں، سازش کے الزامات لگاتے ہیں، یہاں تک کہ دھمکیوں پر بھی اتر آتے ہیں۔ کیونکہ انہیں یہ خدشہ ہوتا ہے کہ سوالات اُن کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، اُن کے "سہل زندگی کے ذرائع” بند ہو سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ، کچھ مخصوص "حواری” یا چمچے ایسے بھی ہوتے ہیں جو آنکھ بند کر کے ان شخصیات کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں۔ یہ خوشامدی ٹولہ نہ صرف غلط کو درست ثابت کرتا ہے، بلکہ سچ بولنے والوں کو بدنام کرنے میں بھی پیش پیش ہوتا ہے۔
ہم اس وقت جس معاشی، سیاسی، سماجی اور کاروباری بحران کا سامنا کر رہیں ہیں ۔ اس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ وہ قیادت ہے جو بظاہر نمائندگی کا دعویٰ تو کرتی ہے، مگر حقیقت میں محض مفادات کے تحفظ اور ذاتی فائدے کی جنگ لڑ رہی ہے۔
اگر ہم انصاف، اعتدال اور غیر جانبداری سے تجزیہ کریں تو یہ حقیقت کسی پردے میں نہیں رہتی کہ جو افراد خود کو ہمارے مسائل کے "علمبردار” کہتے ہیں، اُن کے لیے عوامی مسائل ایک مشن نہیں، بلکہ ایک مستقل ذریعہ معاش ہیں۔ چونکہ انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی پیشہ، مزدوری، یا باضابطہ محنت کا کام اختیار نہیں کیا، اس لیے قیادت اور نمائندگی ہی ان کا واحد پیشہ بن چکی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب ان سے سوال کیا جائے، جواب دینے کے بجائے وہ برا مناتے ہیں، سازش کے الزامات لگاتے ہیں، یہاں تک کہ دھمکیوں پر بھی اتر آتے ہیں۔ کیونکہ انہیں یہ خدشہ ہوتا ہے کہ سوالات اُن کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، اُن کے "سہل زندگی کے ذرائع” بند ہو سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، کچھ مخصوص "حواری” یا چمچے ایسے بھی ہوتے ہیں جو آنکھ بند کر کے ان شخصیات کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں۔ یہ خوشامدی ٹولہ نہ صرف غلط کو درست ثابت کرتا ہے، بلکہ سچ بولنے والوں کو بدنام کرنے میں بھی پیش پیش ہوتا ہے۔ یہ طرزِ عمل معاشرے میں دو خطرناک رجحانات کو جنم دیتا ہے:
جمود اور استحصال:
جہاں قیادت صرف ذاتی مفاد کے لیے موجود ہو، وہاں عوامی مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔
خاموشی اور خوف:
جہاں سوال کو بغاوت سمجھا جائے، وہاں شعور دم توڑ دیتا ہے۔
جب تک کسی نظام میں محاسبہ (Accountability) کا مضبوط نظام موجود نہ ہو، وہ نظام بتدریج فرسودگی، بدعنوانی اور تباہی کی طرف جاتا ہے۔
لہٰذا اب وقت آ گیا ہے کہ
ہم شخصیت پرستی کے بجائے کارکردگی کو پرکھیں۔
ہم سوال کرنا اپنا حق سمجھیں، نہ کہ گناہ۔
اور ہم یہ تسلیم کریں کہ ۔۔ قیادت خدمت ہے ۔۔۔ پیشہ نہیں ۔۔
اگر ہم نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں تو وہی چہرے، وہی نعرے، اور وہی محرومیاں ہمیں وراثت میں ملتی رہیں گی —
اور ہماری آنے والی نسلیں بھی ان مفاد پرستوں کی غلام بن کر رہ جائیں گی۔