
تحریر: طارق نقاش
قریب تین دہائیوں سے پروفیسر ڈاکٹر عائشہ سہیل جامعہ آزاد جموں و کشمیر (یو اے جے کے) میں تعلیمی وقار اور انتظامی صلاحیت کی علامت بنی ہوئی ہیں۔ تاریخ نے انہیں اس اعزاز سے بھی نوازا کہ وہ خطے کی پہلی خاتون رجسٹرار مقرر ہوئیں۔
حال ہی میں وائس چانسلر شپ کے انتخاب میں، خواہ وہ جامعہ آزاد جموں و کشمیر ہو یا ویمن یونیورسٹی باغ، ڈاکٹر عائشہ سہیل نے میرٹ پر اپنی برتری ثابت کی۔ آزاد کشمیر کے مقامی اہل علم میں وہ پہلے نمبر پر اور قومی سطح پر دوسرے نمبر پر رہیں۔ یہ ان کی علمی بصیرت، انتظامی اہلیت اور قائدانہ صلاحیت کا ثبوت ہے۔ ان کے مقابلے میں باقی امیدواروں کے پاس صرف یہ برتری تھی کہ وہ پہلے وائس چانسلر رہ چکے ہیں۔

اب فیصلہ صدرِ آزاد جموں و کشمیر بیرسٹر سلطان محمود کے ہاتھ میں ہے جو بطور چانسلر تمام سرکاری جامعات کے سربراہ ہیں۔ ویمن یونیورسٹی باغ کے لیے سینیٹ نے تین نام تجویز کیے ہیں اور انہی میں سے ایک کا انتخاب ہونا ہے۔ یہ محض ایک تقرری نہیں بلکہ ایک موقع ہے کہ ریاست اپنی بیٹی کو اس منصب پر لا کر نئی تاریخ رقم کرے۔
اگر صدر ریاست ڈاکٹر عائشہ سہیل کو منتخب کرتے ہیں تو یہ فیصلہ محض انتظامی نوعیت کا نہیں ہوگا بلکہ ایک جرات مندانہ پیغام ہوگا۔ یہ پیغام کہ آزاد کشمیر اپنے اہلِ ہنر کو پہچانتا ہے، اپنی خواتین کو قیادت کے منصب تک پہنچاتا ہے اور میرٹ کو ہر سفارش پر ترجیح دیتا ہے۔ ریاست کی واحد خواتین یونیورسٹی کے لیے پہلی خاتون وائس چانسلر کا تقرر دراصل ہر کشمیری لڑکی کے خوابوں اور حوصلوں کو نئی جلا بخشے گا۔
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس سے قبل بھی میں نے میرٹ پر مقامی قیادت کی حمایت کی تھی۔ پروفیسر ڈاکٹر عدنان معراج کی تعیناتی بطور پرنسپل میر واعظ مولوی فاروق میڈیکل کالج مظفرآباد اسی سوچ کا نتیجہ تھی۔ آج وہ ادارہ ان کی انتھک محنت اور قیادت سے نمایاں ترقی کر رہا ہے۔ یہی توقع ویمن یونیورسٹی باغ میں ڈاکٹر عائشہ سہیل کی قیادت سے بھی وابستہ ہے۔
یہ لمحہ آزاد کشمیر کے لیے ایک کڑا امتحان ہے۔ کیا ہم خواتین کو قیادت میں حصہ دار بنا کر نئی مثال قائم کریں گے؟ کیا ہم کشمیری بیٹیوں کو یہ حوصلہ دیں گے کہ وہ بھی اعلیٰ ترین مناصب تک پہنچ سکتی ہیں؟ یا پھر ہم ایک اور سنہری موقع کھو دیں گے؟ تاریخ انتظار کر رہی ہے، فیصلہ آج کرنا ہے۔