
تحریر۔۔۔۔ شہزاد احمد راٹھور

بھارتی تحقیقاتی ادارے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی این آئی اے کی جانب سے بھارتی سپریم کورٹ میں کشمیری حریت پسند رہنما یاسین ملک کی عمر قید کی سزا کو سزائے موتُ میں تبدیل کرنے کی اپیل پر بھارت سمیت پوری دنیا میں ہونے والی بحث نے اس کیس کو ایک بار پھر اجاگر کردیا ہے۔
واضح رہے کہ یاسین ملک کشمیری مزاحمتی سیاست کا وہ نام ہیں جن کی زندگی کشمکش، قربانی اور جدوجہد کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ 1966 میں سرینگر میں پیدا ہونے والے یاسین ملک نے کم عمری ہی میں بھارتی تسلط کے خلاف سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا اور بعد ازاں 1980 کی دہائی میں طلبہ تنظیموں کے ذریعے مزاحمتی سیاست کا آغاز کیا۔ 1987 کے جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات، جنہیں کشمیری عوام نے بدترین دھاندلی سے عبارت قرار دیا، یاسین ملک کے لیے ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوئے انہوں نے پرامن سیاسی جدوجہد کو ترک کر کے مسلح تحریک کا راستہ اختیار کیا اور کشمیر لبریشن فرنٹ (JKLF) کے صفِ اول کے رہنماؤں میں شامل ہو گئے۔ 1989 میں اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کے اغوا اور متعدد مسلح کارروائیوں کے نتیجے میں وہ بھارتی فوج اور اداروں کے سب سے بڑے ہدف بن گئے اور متعدد مرتبہ گرفتاریوں اور جیل کی صعوبتوں کا سامنا کیا۔
1994 میں یاسین ملک نے یکطرفہ طور پر مسلح جدوجہد ترک کرنے اور صرف پُرامن سیاسی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے آزادی کی تحریک کو آگے بڑھانے کا اعلان کیا جس کے بعد انہوں نے دہلی اور سرینگر میں کئی بار بھوک ہڑتالیں اور احتجاجی تحریکیں چلائیں۔ ان کی قیادت میں JKLF نے “آزاد اور خودمختار کشمیر” کے بیانیے کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جو بھارتی اور پاکستانی دونوں سرکاری مؤقف سے مختلف تھا تاہم بھارتی ریاست نے ہمیشہ ان کی سرگرمیوں کو “غیر قانونی” اور “ملک دشمن” قرار دیا جس کے نتیجے میں یاسین ملک بارہا جیلوں میں قید رہے۔ بالآخر 2019 میں بھارتی حکومت نے JKLF کو کالعدم قرار دے دیا اور یاسین ملک کو سخت سیکورٹی مقدمات میں گرفتار کر کے تہاڑ جیل دہلی منتقل کر دیا گیا جہاں ان پر ٹیرر فنڈنگ، بغاوت اور دیگر سنگین الزامات عائد کیے گئے۔ نئی دہلی بھارت کی ایک خصوصی ٹرائل کورٹ نے انہیں ان الزامات میں 2022 میں عمر قید کی سزا سنادی دی عدالت نے اس بات کو تسلیم کیا کہ یسین ملک کا جرم سنگین ہے مگر “ریئرَسٹ آف دی ریئر” کے معیار پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے سزائے موت نہیں دی گئی۔
این آئی اے نے اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ یاسین ملک کو دی گئی سزا کم ہے اور انہیں سزائے موت دی جائے۔ عدالت نے جواب طلب کیا ہے اور اب فیصلہ آنے والے مہینوں میں متوقع ہے بھارتی عدالتی نظام میں سزائے موت صرف انہی کیسز میں دی جاتی ہے جہاں جرم انسانی سماج اور ریاست کے وجود پر ایسا غیر معمولی حملہ ہو جو کسی اور سزا سے پورا نہ ہو سکے۔ ٹرائل کورٹ کے نزدیک یاسین ملک کا جرم سنگین ضرور ہے مگر سزائے موت کی حد تک نہیں ہے این آئی اے کا مؤقف ہے کہ ریاست کے خلاف بغاوت اور مسلح جدو جہد کی مالی معاونت بذاتِ خود اتنی سنگین ہے کہ یہ “ریئرَسٹ آف دی ریئر” کے معیار پر پوری اترتی ہے۔ یہ سوال محض قانونی نہیں بلکہ سیاسی بھی ہے کہ کیا ایک ایسے سیاسی رہنما جس نے دہائیوں پہلے عسکری جدوجہد ترک کردی ہو اسے محض اس کے نظریات اور ماضی کی مسلح سرگرمیوں کی بنا پر پھانسی دی جا سکتی ہے جبکہ اس نے جرم قبول کر کے عدالتی کارروائی میں تعاون کیا ہو۔ یاسین ملک کی سزا صرف ایک عدالتی فیصلہ نہیں بلکہ کشمیر کی سیاست پر براہِ راست اثر انداز ہونے والا واقعہ ہے کشمیری عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ بھارتی عدالتیں “سیاسی دباؤ” میں فیصلے کر رہی ہیں دہلی میں یہ مقدمہ “انسدادِ دہشت گردی” کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے مگر مقبوضہ کشمیر کے اندر اس مقدمے کو “سیاسی انتقام” کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
این آئی اے کی اپیل اور حکومتِ ہند کا رویہ یہ ظاہر کررہا ہے کہ ریاست صرف سزا نہیں بلکہ ایک مثالی پھانسی کے ذریعے کشمیری تحریک کو مزید دبانا چاہتی ہے اور یہ تاثر وفاق-ریاست تعلقات کو مزید بگاڑ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ سزائے موت پر عالمی سطح پر سخت تحفظات ہیں اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین بارہا واضح کر چکے ہیں کہ سیاسی بنیادوں پر سزائے موت دینا انسانی حقوق کے عالمی معاہدوں کے خلاف ہے اگر اس کیس کو بین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے تو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی ڈھانچے کے مطابق ہر انسان کو زندگی اور وقار کا بنیادی حق حاصل ہے اور کسی شخص کو ظالمانہ یا غیر انسانی سزا نہیں دی جا سکتی اسی اصول کے تحت سزائے موت کو انسانی حقوق کے منافی تصور کیا جاتا ہے انٹرنیشنل کونویننٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس میں واضح کیا گیا ہے کہ اگرچہ بعض ممالک میں سزائے موت ابھی باقی ہے لیکن یہ صرف سب سے سنگین جرائم تک محدود ہونی چاہیے اور ان جرائم کی تعریف صرف قتل تک محدود کی گئی ہے، سیاسی جرائم یا بغاوت پر سزائے موت دینا بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیار کے خلاف ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور ہیومن رائٹس کمیٹی نے بارہا قراردادوں کے ذریعے سزائے موت پر عالمی پابندی یا کم از کم مورٹوریم کی اپیل کی ہے اور سیاسی نوعیت کے مقدمات میں پھانسی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یورپی یونین میں سزائے موت پر مکمل طور پر پابندی ہے اور یورپی یونین کے بنیادی حقوق کے چارٹر میں یہ بات درج ہے کہ کسی شخص کو بھی سزائے موت نہیں دی جا سکتی۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں سزائے موت کے خاتمے کے لیے مسلسل سفارتی اور سیاسی دباؤ ڈالتی ہے بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ بھی اس بات پر متفق ہیں کہ سزائے موت بنیادی انسانی حقِ زندگی کے خلاف ہے اور یہ اکثر امتیازی رویوں، سیاسی دباؤ اور غیر شفاف عدالتی کارروائیوں کے تحت دی جاتی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ہمیشہ شفاف ٹرائل، وکیل تک رسائی اور اپیل کے حق کو لازمی قرار دیا ہے جبکہ انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس نے واضح کیا ہے کہ سزائے موت کو سیاسی جرائم یا غیر مہلک جرائم پر دینا بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے یوں مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اقوام متحدہ، یورپی یونین اور دیگر عالمی اداروں کا موقف یہی ہے کہ سزائے موت نہ صرف انسانی حقوق کی پامالی ہے بلکہ سیاسی مقدمات میں اس کا اطلاق عالمی قانون کی روح کے سراسر منافی ہے۔
یہ نکتہ انتہائی اہم ہے کہ ٹرائل کورٹ میں یاسین ملک پر جرم ثابت نہیں ہوا تھا بلکہ انہوں نے گِلٹی پلی Guilty Plea کا قانونی راستہ اختیار کیا تھا بھارتی قانونی زبان میں “گِلٹی پلی” (Guilty Plea) اس وقت استعمال ہوتا ہے جب کوئی ملزم عدالت کے سامنے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو بغیر ٹرائل کے تسلیم کر لیتا ہے۔ ہندوستانی ضابطہ فوجداری (Code of Criminal Procedure – CrPC) کی دفعہ 229 کے مطابق اگر ملزم “قصوروار ہونے کا اقرار” کرے تو عدالت اس اقرار کو ریکارڈ پر لیتی ہے اور اس بنیاد پر فیصلہ سناتی ہے اس صورت میں عدالت ٹرائل کی مکمل کارروائی نہیں کرتی بلکہ براہِ راست سزا طے کرنے (Sentencing) کے مرحلے میں داخل ہو جاتی ہے۔ عام طور پر قصور قبول کرنے پر ملزم کو رعایت (leniency) مل سکتی ہے لیکن یہ رعایت عدالت کی صوابدید پر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر یاسین ملک نے 2022 میں دہلی کی خصوصی عدالت میں “گِلٹی پلی” کا آپشن استعمال کیا تھا یعنی تمام الزامات قبول کر لئے تھے اس کے بعد عدالت نے شواہد کی مزید جانچ کئے بغیر براہِ راست سزا کا فیصلہ سنایا اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی تھی عدالت نے یہ بھی قرار دیا تھا کہ چونکہ جرم “ریئرَسٹ آف دی ریئر” کے معیار پر پورا نہیں اترتا، اس لیے انہیں سزائے موت نہیں دی جاسکتی جس کے خلاف این آئی اے نے دہلی ہائی کورٹ میں اپیل کررکھی ہے کہ یسین ملک کو سزائے موت دی جائے۔
اس وقت یاسین ملک دہشتگردی کی خصوصی عدالت کے 2022 کے فیصلے کے تحت عمر قید کی سزاکاٹ رہے ہیں اور دہلی ہائیکورٹ میں 10 نومبر 2025 کو اس اپیل کی سماعت ہے جس سے واضح ہوگا کہ “ریئرَسٹ آف دی ریئر” کے معیار کو ہائی کورٹ کیسے دیکھتی ہے اور اقرارِ جرم کو سزا کی شدت یا نرمی میں کس زاویے سے پرکھا جاتا ہے۔ یاسین ملک کے اہلِ خانہ اور بیٹی نے بھی عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ یہ مقدمہ “کینگرو کورٹ” بن چکا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں سوال اٹھا رہی ہیں کہ اگر ایک سیاسی قیدی کو جس نے عدالت کے سامنے جرم تسلیم کر کے عمر قید قبول کی پھانسی دی گئی تو یہ انصاف نہیں بلکہ سیاسی انتقام ہوگا۔