
تحریر۔۔عزیر احمد غزالی ۔۔ امیر مہاجرین جموں کشمیر
حالیہ فیصلہ مہاجرین جموں کشمیر 1989 کے مستقبل اور تحریکِ آزادی کشمیر پر منفی اثرات کا سبب بن سکتا ہے ۔
کشمیر کی آزادی کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے شہداء، قربانی دینے والے غازیوں اور جبری طور پر ہجرت کرنے والے ہزاروں کشمیری خاندانوں جو بیس کیمپ (آزاد کشمیر) میں مقیم ہیں۔ ان مہاجرین کے بچوں کے لئے ہائی کورٹ کے فیصلے کے تحت مختص چھ فیصد تعلیمی اور ملازمت کا کوٹہ ایک سہارا تھا، تاکہ وہ وسائل کی کمی سختیوں کے باوجود اعلیٰ تعلیم اور بہتر مستقبل حاصل کر سکیں۔
اب اس کوٹہ کے خاتمے سے 46,000 مہاجرین کشمیر کے خاندانوں میں صفِ ماتم بچھ گئی ہے۔ یہ فیصلہ محض ایک انتظامی اقدام نہیں بلکہ اس کے اثرات براہِ راست مہاجرین کشمیر کے مستقبل اور تحریکِ آزادی کشمیر کی روح پر پڑیں گے۔
مہاجرین کشمیر 1989 کے تعلیمی مستقبل پر منفی اثرات
کشمیری مہاجرین غربت اور بے سروسامانی کا شکار ہیں ، غربت کی لکیر سے نیچے سسک کر زندگی جینے والے مہاجرین کے بچے تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ مہاجر بستیوں اور کرائے کے مکانات میں بنیادی سہولیات سے محروم رہ رہے مہاجرین کشمیر 1989 کے بچوں کو بنیادی تعلیمی سہولیات دستیاب ہی نہیں ہیں ۔ نہ ٹیوشن ، نہ اچھا سکول ، نہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ ۔ ہر سطح پر کوٹہ کے خاتمے سے وہ میڈیکل، انجینئرنگ، لاء اور دیگر پروفیشنل اداروں میں داخلے کے حق سے کلی طور پر محروم ہو جائیں گے۔ حالات کے جبر کا شکار مہاجرین خاندانوں کی ایک پوری نسل اعلیٰ تعلیم سے دور ہو کر محرومی اور جہالت کی طرف دھکیل دی جائے گی ۔
مہاجرین کشمیر کی معاشی پسماندگی میں اضافہ
اعلیٰ تعلیم کے مواقع ختم ہونے سے مہاجرین کے نوجوان بہتر روزگار حاصل کرنے سے محروم ہو جائیں گے۔ غربت اور بے روزگاری مزید بڑھے گی اور مہاجرین کشمیر مستقل طور پر محرومیوں اور لاچارگیوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔ بیس کیمپ میں پہلے ہی مہاجرین بدترین معاشی حالات سے دوچار ہیں، حالیہ فیصلہ ان کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کرے گا۔
نفسیاتی اور جذباتی اثرات
کشمیری شہداء اور مزاحمتی غازیوں کے بچے یہ محسوس کریں گے کہ ان کی قربانیاں اور جدوجہد کی کوئی قدر نہیں کی گئی۔ مہاجرین کشمیر کا احساسِ محرومی اور مایوسی ان کے اندر نفسیاتی دباؤ اور بیگانگی کو جنم دے گا۔ مہاجرین کشمیر کے مایوس نوجوان خدانخواستہ منفی رجحانات کی طرف بھی مائل ہو سکتے ہیں۔
بھارت کیخلاف جاری تحریکِ آزادی کشمیر پر یہ فیصلہ کاری ضرب ثابت ہوسکتا ہے ۔
مقبوضہ جموں کشمیر میں جاری تحریکِ آزادی وہاں کے عوام میں اس طرح کے فیصلوں سے بداعتمادی اور حوصلہ شکنی پیدا ہوگی۔ مقبوضہ کشمیر میں یہ تاثر مضبوط ہوگا کہ بیس کیمپ میں بھی شہداء ، غازیوں اور مہاجرین کو فراموش کیا جا رہا ہے۔ بھارت اور دیگر دشمن قوتیں اس فیصلے کو پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کریں گی کہ "پاکستان اور آزاد کشمیر میں بھی کشمیری مہاجرین کی کوئی قدر و قیمت نہیں ” مہاجرین کشمیر کی ناگفتہ بہ صورت حال ، حقوق سے محرومی اور سماجی طور پر نظر انداز کیئے جانے کی وجہ سے عالمی سطح پر تحریکِ آزادی کی ساکھ اور کشمیری عوام کی قربانیوں کا وقار مجروح ہوگا۔
سماجی و سیاسی اثرات
مہاجرین کشمیر کی 46,000 آبادی میں غم و غصہ اور بے چینی بڑھے گی، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر احتجاج اور مظاہرے ہو سکتے ہیں۔ جس کے سلسلے میں مہاجرین کشمیر 1989 پہلے ہی مہاجرین بستیوں میں پُرامن احتجاجی تحریک شروع کیئے ہوئے ہیں ۔ مہاجرین کشمیر کا حکومت آزاد کشمیر پر سے اعتماد مزید کمزور ہوگا، مہاجرین خود کو تنہا اور نظر انداز شدہ سمجھنے لگیں گے۔ نئی نسل بیس کیمپ اور تحریک کے ساتھ جذباتی وابستگی کھونے لگے گی، جو مستقبل کے لئے خطرناک ہے۔
ہائی کورٹ کے چھ فیصد کوٹہ کا خاتمہ صرف ایک تعلیمی پالیسی میں تبدیلی نہیں بلکہ یہ فیصلہ مہاجرین کشمیر کے تعلیمی و معاشی مستقبل / ان کے نفسیاتی و سماجی استحکام اور تحریکِ آزادی کشمیر اور مسئلہ کشمیر کی بقاء کیلئے تباہ کن اثرات مرتب کرے گا۔ یہ اقدام شہداء کی قربانیوں کی توہین ہے اور غازیوں و مہاجرین کی نئی نسل کے ساتھ ناانصافی ہے۔ اگر بروقت اس فیصلے پر نظرِ ثانی نہ کی گئی تو یہ بیس کیمپ میں بداعتمادی، انتشار اور تحریکِ آزادی میں کمزوری کا باعث بن سکتا ہے۔