
تحریر: محمد اقبال میر
مہاجرین وہ خوش نصیب لوگ تھے جو ایمان کی دولت پا کر مکہ کے طوفانِ ظلم سے مدینہ پہنچے۔ انہوں نے اپنا سب کچھ گھر، زمین، کاروبار، رشتے دار سب چھوڑ دیئے اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ ہجرت کرگئے۔ دوسری طرف انصار تھے جنہوں نے اپنی خوشیاں، اپنے گھر، اپنی زمینیں اور حتیٰ کہ اپنی بیویاں تک قربان کرنے کی پیشکش کی تاکہ مہاجر بھائی اجنبی نہ رہیں۔ یہ رشتہ کسی قبیلے یا خون کا نہیں تھا بلکہ ایمان اور ایثار کا تھا۔ قرآن نے ان کے بارے میں کہا:”وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ“(وہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں چاہے خود ضرورت مند ہوں)۔
یہ صرف تاریخ نہیں بلکہ ایسا آئینہ ہے جس میں آج بھی ہم اپنی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ 1947 کی تقسیم پر ریاست جموں و کشمیر کا فیصلہ عوام کی مرضی کے مطابق نہ ہوسکا۔ بھارت نے قبضہ کیا اور آج تک خون کی ندیاں بہا رہا ہے۔ نوے کی دہائی وہ سیاہ دور تھا جب کپواڑہ، بارہ مولہ، سوپور اور ہندواڑہ سمیت دیگر مقبوضہ علاقوں کے اندر گھروں میں ماتم برپا تھا۔ گولیوں کی بارش میں معصوم بچے ماں کی گود میں دم توڑتے اور لوگ اپنے شہیدوں کو دفنانے کے بعد ہجرت پر مجبور ہوتے۔
وہ ماں جس نے کل اپنے شوہر کی لاش کو کندھا دیا، وہی اپنے معصوم بچے کا ہاتھ پکڑ کر پہاڑوں کے راستوں سے آزادکشمیر کی طرف نکلی۔ وہ باپ جو کل کھیتوں میں ہل چلاتا تھا، آج اپنی بیٹی کو عزت بچانے کی خاطر اجنبی زمین پر لے آیا۔ اتنا ہی نہیں کئی سرکاری ملازمتیں چھوڑ کر، اپنا کاروبار، کھیت کھلیان سب کچھ ہجرت کی۔ یہ ہجرت خالی ہاتھوں کی نہیں تھی، یہ آنسوؤں اور زخموں کی ہجرت تھی۔
آزادکشمیر میں انصار مدینہ کی یاد تازہ ہوئی، لوگوں نے انہیں گلے لگایا۔ مگر وقت کے ساتھ وہ گلے ڈھیلے پڑ گئے۔ آج 35 برس گزرنے کے بعد بھی مہاجرین کے کیمپوں میں کرب کے دیے جل رہے ہیں۔
تصور کیجیے، ایک کمرے کے اندر چار خاندان رہنے پر مجبور ہیں۔ دیواروں پر نمی، چھت سے ٹپکتا پانی اور بچوں کی آنکھوں میں مستقبل کا اندھیرا۔ ان کے پاس نہ زمین ہے، نہ روزگار، نہ علاج، نہ تعلیم۔ ایک وقت تھا جب ملازمتوں کا کوٹہ ان کے لیے امید کی کرن تھی، مگر عدالت کے ایک فیصلے کے بعد جیسے خواب ٹوٹنے لگے۔ اب ایک نوجوان جب انٹرویو میں ناکام لوٹتا ہے تو اس کی ماں رات بھر روتی ہے کہ ”بیٹا، ہم نے سب کچھ قربان کیا مگر تجھے نوکری بھی نہ ملی۔“
جنوری 1989 سے جولائی 2025 تک:* 96,461 شہید,* 7,397 حراستی قتل,* 1,07,983 یتیم بچے,* 22,984 بیوہ خواتین,* 11,267 خواتین کی عصمت دری.یہ محض اعداد نہیں، ہر ہندسہ ایک کہانی ہے۔ ایک ماں کی چیخ، ایک بیٹی کی سسکی، ایک بچے کا روتا ہوا چہرہ۔
حکومت پاکستان ہر سال ڈھائی کھرب روپے آزادکشمیر کو دیتی ہے۔ آزادکشمیر کے حکمران دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر ترقیاتی بجٹ میں ان کا ذکر تک نہیں ہوتا۔ سیاسی جلسوں میں ان کے نعرے لگائے جاتے ہیں، مگر جب روٹی، کپڑا اور چھت کی باری آتی ہے تو سب زبانیں خاموش ہو جاتی ہیں۔
یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان کے نام پر اپنی زمینیں، اپنے گھر اور اپنی قربانیاں پیش کیں۔ 35سال بعد اب ہندوستان ان کی شناخت چھین رہا ہے ان کی جائیدادیں ضبط کی جارہی ہیں کیونکہ یہ ہندوستان کیخلاف بغاوت پر ہیں۔ مگر آج ان کے بچے سوال کرتے ہیں:”کیا ہم لاوارث ہیں؟”اگر مدینہ کے انصار اپنے بھائیوں کے لئے اپنے گھر کھول سکتے تھے تو آج آزادکشمیر کی حکومت مہاجرین کیساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوں کرتی ہے؟ کیا ان کی قربانیاں محض تاریخ کی کتابوں تک محدود رہ جائیں گی؟
یہ مہاجرین بوجھ نہیں، یہ تحریک آزادی کا سرمایہ ہیں۔ ان کے بچے ابھی تک خواب دیکھتے ہیں کہ سری نگر کی گلیوں میں آزادی کے ترانے گونجیں گے۔ مگر اس وقت تک انہیں کم از کم جینے کا سہارا تو چاہیے۔
حکومت اگر انہیں انصار مدینہ کی طرح سینے سے نہ لگائے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔آج سوال یہ نہیں کہ ان کے پاس کتنا ہے، سوال یہ ہے کہ ہم نے ان کا کتنا حق لوٹا دیا ہے؟