
چودہ اگست کو قائد اعظم کی تصویر اشتہار سے کیوں غائب ہوئی
14اگست کے اشتہارات میں بانیِ پاکستان کی تصویر شامل نہ پولین بلوچ کی زیرِ صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس منعقد ہوا، اجلاس میں 14 اگست کے سرکاری اشتہارات میں قائداعظم کی تصویر شامل نہ کرنے کا معاملہ کمیٹی میں زیر بحث آیا۔
جس پر وزارت اطلاعات کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر نے سرکاری اشتہارات میں سنگین غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بڑا سنگین سقم تھا، جو وزارت کی سطح پر نہیں ہوا ہے،وزیر اطلاعات نے معاملے پر محکمانہ انکوائری کا حکم دیا تھا،یہ قومی جرم ہوا ہے۔
وزارت اطلاعات کی طرف سے جس ایڈورٹائزنگ ایجنسی کو جو مواد دیا گیا اس میں قائداعظم کی تصویر تھی،قائداعظم کی تصویر شامل نہ کرنے کی غلطی ایجنسی سے ہوئی ہے، جس پر ایڈورٹائزنگ ایجنسی کو فوری طور پر نوٹس جاری کیا گیا ہے، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ
قائمہ کمیٹی کو بتایا جائے کہ یہ خطا کس سے سرزد ہوئی ہے،انکوائری رپورٹ کا انتظار کر لیتے ہیں پھر معاملہ مزید دیکھیں گے، اجلاس میں پی ٹی وی ملازمین کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کا معاملہ زیرِ غور آیا۔
رکن کمیٹی سحر کامران نے کہا کہ پی ٹی وی میں گزشتہ 3 ماہ کی تنخواہیں ادا نہیں کی گئی ہیں،وزرات کی جانب سے اخباروں کو اشتہارات کی ادائیگی نہیں کی گئی ہے،پی ٹی وی اس وقت کرائسز کا شکار ہوچکا ہے۔
وزارت اطلاعات و نشریات حکام نے بریفنگ دی کہ جون 2025 تک پی ٹی وی کے ریگولر ملازمین کی تنخواہیں ادا کردی گئی ہیں،449 ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی گئی تھیں،727 ملازمین کو اب تک ادائیگی نہیں کی گئی ہے،
پی ٹی وی جیسے بڑے ادارے میں ریفارمز لانے کے لیے وقت لگے گا،پی ٹی وی ملازمین کی تعداد کم کرنے کے لئے وزارت اقدامات کر رہی ہے، وزارت اطلاعات و نشریات حکام نے بتایا کہ اس مرتبہ اخبارات اور تمام ٹیلی ویژن چینلز کو ساڑھے چھ ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئی ہیں۔
ستمبر 2025 کے آخر تک نجی ٹیلی ویژن چینلز کو ڈیڑھ ارب کی ادائیگیاں مزید کی جائیں گی، کمیٹی میں ایم ڈی اے پی پی عاصم کھچی نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ سرکاری نیوز ایجنسی میں 125 ملین کی بدعنوانی کا معاملہ سامنے آیا تھا،اس معاملے کی تحقیقات اب ایف آئی اے کر رہا ہے۔
کمیٹی ارکان نے ایم ڈی اے پی پی کی سرکاری نیوز ایجنسی میں بدعنوانی کی نشان دہی پر تعریف کی،رکن کمیٹی امین الحق نے کہا کہ ایم ڈی اے پی پی تعریف کے قابل ہیں،چیئرمین کمیٹی سمیت تمام ارکان ایم ڈی اے پی پی کے ساتھ اس کرپشن کے خلاف کھڑے ہیں۔
بعد ازاں اجلاس میں پاکستان انفارمیشن کمیشن حکام نے اپنے ادارے کی کارکردگی پر قائمہ کمیٹی ارکان کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ سات سال انفارمیشن کمیشن کو بنے ہوئے ہیں،معلومات فراہم نہ کرنے پر انفارمیشن کمیشن نے سی ای او پی آئی اے کو نوٹس جاری کیا تھا،لیکن انہوں نے کمیشن کے نوٹس پر جا کر اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا۔
گزشتہ 8 سالوں میں انفارمیشن کمیشن کو 6340 اپیلیں موصول ہوئی تھی،جن میں سے 5435 اپیلیں نمٹا دی گئی، 905 ابھی تک عمل میں ہیں۔