
سید علی گیلانی ۔۔۔
تحریر۔۔۔شوکت جاوید میر

کون کہتا ہے موت آئی تو میں مر جاؤں گا ،میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
یہ شعر بابائے حریت سید علی شاہ گیلانی کی ولادت اور شھادت پر عین صادق آتا ہے ۔
تاریخ کشمیر میں لہو رنگ قربانیوں کا تسلسل کرہ ارض میں پرامن سیاسی جمہوری جدوجھد کی منہ بولتی مثال ہے جس تحریک میں نہتے پرامن آزادی پسند کشمیری مرد و زن نوجوانوں نے خواداری کی ایسی داستان حیات رقم کی اور اٹھ لاکھ قابض افواج پیرا ملٹری فورسز کالے قوانین بدترین مظالم ریاستی دہشت گردی کا مقابلہ کیا جسکی بناء پر اہل کشمیر اور اہل پاکستان یہ ثابت کرنے میں سرخرو ہوئے کہ تحریک آزادی کشمیر خود رو پودوں کی طرح اگنے والی ایک مکمل جمہوری آئینی جدوجھد یے قارئین محترم ایک اہم نقظہ بحرحال ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے کہ تحریک آزادی کشمیر نہ تو زمینی جھگڑا ہے نہ مذہبی تنازعہ اور نہ یہ علیحدگی کا کوئی پہلو یے یہ جدوجھد صرف اور صرف اقوام متحدہ کے چارٹر سیکورٹی کونسل کی منظور شدہ قراردادوں کے مطابق ڈیڑھ کروڑ کشمیری عوام کے بنیادی حق حق خودارادیت کے حصول کا تسلیم شدہ حل طلب تنازعہ ہے بلکہ یہ کہنا مبنی بر حقائق ہے کہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر دنیا بھر کے حل طلب پرانے، سلگتے مسائل میں مسلئہ کشمیر بھی ایک ہے لیکن اپنوں کی ریشہ دوانیوں اور اغیار کی محلاتی سازشوں نے نہتے بے یارو مددگار مظلوم کشمیریوں کو سفاک بھارت کے خونی پنجوں میں جکڑا چھوڑ دیا ۔
نیشنل کانفرنس کے کرادر کے منفی مثبت اثرات اب تک اس تحریک کا تعاقب کر رہے ہیں اگرچیکہ اب تک لاکھوں کشمیری عوام کی خونریزی، خواتین کی آبرو ریزی ،گمنام قبروں کی دریافت ، لاک ڈاؤن بھیکرفیو کا نفاذ ،گھر گھر تلاشیاں، نوجوانوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں ماوراء عدالت موت کے گھاٹ اتارنا ،بھارتی سیکولرازم اور جمہوریت کے دعوؤں پر کلنک کا ٹیکہ ہیں تحریک آزادی کشمیر میں نشیب و فراز اتے رہتے ہیں کبھی عروج اور کبھی مایوسی کے بادل منڈلانے لگتے ہیں لیکن کشمیری عوام نے نہ تو بھارت کو تسلیم کیا نہ انکے جھانسے میں آئے نہ ہی ان کے فریب لالچ دغا بازی عیاری مکاری چالبازی کو خاطر میں لایا سب سے بڑھ کر یہ کہ عزت و آبرو کی قربانیوں پیش کرنے والی خوادار کشمیری قوم کے پایہ استقلال میں کبھی لغزش نہیں آئی تیرہ جولائی انیس سو اکتیس سرینگر جیل کے باہر عبد القدیر خان کی قیادت میں اللہ اکبر سے لا الہ الااللہ تک آذان مکمل کرتے ہوئے بائیس کشمیری سرفروشوں نے بہادری خوداری کی تاریخ خون ناحق سے لکھ کر دنیا بھر کی مہذب پُرامن قوتوں کیلئے ایک درخشندہ باب کا اضافہ کر دیا چھ نومبر انیس سو ستالیس کو پاکستان لانے کا جھانسہ دے کر اڑھائی لاکھ سے زائد کشمیریوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا اگرچیکہ یہ بھی ایک طویل بحث ہے اور تحریک آزادی کشمیر کو قدم قدم پر بارودی سرنگوں کا سامنا رہا ہے اس سارے طویل ترین صبر آزما سفر میں اہل کشمیر رب العزت کے خصوصی فضل وکرم کی وجہ سے دنیا کی بڑی معاشی طاقت بھارت کا مقابلہ کرتے چلے آ رہے ہیں آج بھی بھارت کی تہاڑ جیل میں شھید کشمیر مسلح جدوجھد کی روح رواں مقبول بٹ شہید اور بھارتی پارلیمنٹ خود ساختہ کیس میں سزائے موت پانے والے افضل گورو شھید کی باقیات بھارت کیلئے ڈیتھ وارنٹ کی مانند ہیں اور اب تک حصول آزادی کی تڑپ اور اپنا آج انے والی نسلوں کے کل پر قربان کرنے والے شھیدوں کے جسد خاکی انکے ورثاء کو واپس نہ کرنا جہد مسلسل کو جلا بخشتے ہیں۔

قارئین کرام مقبوضہ جموں و کشمیر کی آزادی کیلئے تین جنگیں لڑنے والے بڑے بھائی دکھ سکھ کے ساتھی ڈیڑھ کروڑ کشمیری عوام کے پیدائشی حق حق آزادی کے محافظ پاکستان ،افواج پاکستان اور قومی سلامتی کے اداروں کے لافانی عظیم الشان کردار پر ممنون احسان بھی ہیں اور شکر گزار بھی جنھوں نے اقوام متحدہ سمیت دنیا کے ہر فورم پر مسلئہ کشمیر کو اپنی ترجیحات کا جزو لاینفک بنائے رکھا مقبوضہ جموں و کشمیر کے نہتے پرامن عوام کی بے باک پرخلوص وکالت کی بلکہ اپنی معشیت کو قربان تو کر دیا لیکن نظریاتی رشتوں اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مصور پاکستان شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ایٹمی پروگرام اور متفقہ آئین کے بانی قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو میزائل ٹیکنالوجی کا حصول ممکن بنانے والی دختر مشرق محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی کامیاب ترین خارجہ و کشمیر پالیسوں پر کوئی آنچ نہیں آنے دی حالانکہ کرکٹ ڈپلومیسی ٹریڈ ڈوپلومیسی بیک ڈور ڈپلومیسی شٹل ڈوپلومیسی بس سروس وفود کے تبادلوں کے ساتھ امن آشا کیلئے پاکستان نے چار قدم آگے بڑھ کر پہل بھی کی اور لچک کا مظاہرہ کیا مگر بھارت ہندی ہندو ہندوستان کی بنیاد پرست دقیانوسی خیالات اور توسیع پسندانہ عزائم سے باہر نہیں نکل سکا تحریک آزادی کشمیر دراصل تحریک تکمیل پاکستان کی حیات جاویدانہ ہے ۔
قارئین کرام پانچ اگست دو ہزار چھ کے بعد بھارت نے آرٹیکل تین سو ستر اور دفعہ پینتیس اے میں ترمیم کے ذریعے مقبوضہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت پر آئینی دہشت گردانہ کارروائیوں کا آغاز کیا مظلوم عوام سے انکا جھنڈا اور ترانہ چھیننے کی وارداتوں میں بظاہر کامیابی مگر عملاً پسپائی رسوائی کا سامنا کیا مقبوضہ جموں و کشمیر کی قیادت کے گھر نذر آتش کئے گئے ان پر اور ان کے خاندانوں رشتہ دارو پر بوگس مقدمات بنائے گئے جائیدادیں ضبط کر کے انکی سفری دستاویزات کی ضبطی اسکی جابرانہ سوچ کی عکاسی کرتے ہیں ان حالات میں بابائے حریت سید علی شاہ گیلانی سابق چیئرمین کل جماعتی حریت کانفرنس نے قوم کی ریبری کا مقدس فریضہ سر انجام دیا سید علی شاہ گیلانی کی 29 ستمبر 1929 کو بارہ مولہ کے گاؤں میں ولادت ہوئی ابتدائی تعلیم سوپور سے حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ تکمیل لاہور پاکستان سے کی سید علی شاہ گیلانی عزم و استقامت کے کوہ ہمالیہ تھے جنھوں نے بھارتی جبر کے خلاف قوم ک کی فکری تحریکی رہنمائی کی آپ ایک فلسفی علمی اور مذہبی سکالر استاد منصف محقق بھی تھے اللہ تعالیٰ نے اس قومی رہنما کو ان گنت خوبیوں سے نواز رکھا تھا۔

قارئین سید علی شاہ گیلانی تین بار مقبوضہ جموں و کشمیر کی اسمبلی میں عوامی مینڈیٹ حاصل کر کے ممبر منتخب ہوئے باوجود اس کے پرکشش مراعات عہدے مرتبے انکی اندر کی اگ جذبہ آزادی کو ٹھنڈا نہیں کر سکے سید علی شاہ گیلانی سولہ سال سے زائد وقت تک پس زنداں رہے لگ بھگ بارہ سال گھر میں نظر بند رہنے والے اس عظیم کشمیری رہنما سید علی شاہ گیلانی کے سفر آخرت میں سفاک بھارت نے جو درندگی کا مظاہرہ کیا وہ کشمیری عوام کے دلوں پر خون کی مانند جما ہوا ہے اج یکم ستمبر کو شھید سید علی شاہ گیلانی کا چوتھا یوم شھادت ہے وہ سید علی گیلانی جنھوں نے بھارت کے خلاف اسلام کی نسبت سے ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے پاکستان سے رشتہ کیا لا الہ الااللہ کے لافانی نظریاتی رشتوں کو ہمیشہ کیلئے امر کر دیا جو بھارت کیلئے موت ہیں سید علی شاہ گیلانی کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے انکے افکار و نظریات کا پرچار ہی آزادی کی منزل مقصود تک پہچانے کی ضمانت ہیں آج سے پانچ دن بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کا چہھترواں یوم دفاع ہے اس بار پاکستانی کشمیری عوام فیلڈ مارشل حافظ سید عاصم منیر کی ولولہ انگیز قیادت میں فاتح اقوام کی حثیت سے منانے کا اعزاز حاصل کریں گے کیونکہ مظبوط خوشحال مستحکم جمہوری پاکستان ہی تحریک آزادی کا ضامن ہے اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے افواج پاکستان کی دفاعی استعداد کار اور آس کی پیشہ ورانہ استعداد کار بڑھانے میں اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے غیبی امداد فرمائے آمین ثم آمین