
تحریر : بن محمد
وہ جنوری کی ایک سرد رات تھی۔ برف زمین کو سفید چادر کی طرح ڈھانپے ہوئے تھی۔ سری نگر کے مضافات میں رہنے والے پنڈت خاندان کے گھر کے صحن میں چولہا ٹھنڈا ہو رہا تھا۔ اچانک شور بلند ہوا، گلیوں میں خوف کی پرچھائیاں رقص کرنے لگیں۔ ماں نے جلدی میں بچوں کو جگایا، باپ نے الماری سے چند کپڑے اور پرانی تصویریں نکالیں اور کہا:
“جلدی کرو… ہمیں جانا ہوگا۔”
یہ وہ لمحہ تھا جب صدیوں سے ایک ہی زمین میں جڑیں رکھنے والا خاندان اپنی شناخت، اپنی جڑیں، اور اپنے خواب وہیں چھوڑ کر نکلنے پر مجبور ہوا۔خالی ہاتھوں کا سفر
وہ رات صرف ایک گھر کی نہیں، ہزاروں گھروں کی تھی۔ لوگ اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ کر نکل پڑے۔ کوئی تنور میں پکتی روٹی ادھوری چھوڑ آیا، کوئی اپنی لائبریری، کوئی اپنے کھیت اور کوئی اپنے بزرگوں کی قبریں۔ برف پر قدموں کی چاپ کے ساتھ روتے بچوں کی سسکیاں گونج رہی تھیں۔
اسی وقت وادی کے دوسرے کونے میں ایک مسلمان خاندان بھی اپنے آبائی مکان سے نکل رہا تھا۔ خوف اور غیر یقینی نے انہیں بھی سرحد پار پاکستان اور آزاد کشمیر کی طرف دھکیل دیا۔ ماں کی آنکھوں میں سوال تھا:
“کیا ہم کبھی واپس لوٹیں گے؟”خیموں کی زندگی
جموں کے کیمپ میں وہ پنڈت خاندان زمین پر بچھے ترپال پر سو رہا تھا۔ بارش کی بوندیں ٹپک کر اندر آتی تھیں اور سرد ہواؤں میں بچوں کی کانپتی ہڈیاں ماں کے کلیجے کو چیر دیتی تھیں۔ اسی طرح مظفرآباد کے قریب خیمہ بستی میں وہ مسلمان خاندان بارش اور کیچڑ سے جوجھ رہا تھا۔ دونوں کے دکھ ایک جیسے تھے: بے گھری، بھوک، اور اجنبیت کا احساس۔نئی نسل کی آنکھوں میں پرانا درد
سال گزرتے گئے۔ خیموں میں کھیلتے بچے جوان ہو گئے۔ مگر ان کی آنکھوں میں ہمیشہ ایک سوال رہا:
“ہمارا گھر کہاں ہے؟”
ان کے والدین نے انہیں قصے سنائے—دریاؤں کے، باغوں کے، چنار کے پیڑوں کے، اور اس زمین کے جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔ لیکن وہ زمین ان بچوں کے لیے محض ایک کہانی تھی، ایک خواب، جسے انہوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔
شناخت کا زخم
ان خاندانوں کی سب سے بڑی اذیت یہ ہے کہ وہ جہاں بھی ہیں، اپنے نہیں لگتے۔ جموں یا دہلی کی گلیوں میں بستے پنڈت بھی خود کو اجنبی سمجھتے ہیں، اور پاکستان یا آزاد کشمیر کے کیمپوں میں رہنے والے مسلمان بھی۔ ان کی پہچان ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے:
“ہم کشمیری ہیں… مگر کہاں کے؟”
امید کی کرن یہ کہانی ایک خاندان کی نہیں، ہزاروں خاندانوں کی ہے۔ وہ سب اپنی وادی کی خوشبو کو یاد کرتے ہیں۔ وہ دن جب بہار آتی تھی اور بادام کے درخت کھلتے تھے، جب جھیل ڈل کے پانی میں کشتیوں کی روشنی جھلملاتی تھی۔ ان کے دل آج بھی اسی سوال پر اٹکے ہیں:
“کیا کبھی وہ وقت آئے گا جب ہم اپنے گھروں کو لوٹیں گے؟”
شاید وقت کے زخم گہرے ہیں، مگر امید اب بھی زندہ ہے۔ یہی امید انہیں زندہ رکھے ہوئے ہے کہ ایک دن وہ وادیٔ کشمیر دوبارہ اپنے سب بچوں کو گلے لگا لے گی۔ شائد وہ ماں بھی تڑپ رہی ہوگی کہ میرے کچھ بچے وقت کی بےرحم تھپیڑوں نے مجھ سے چھین لئے ہیں۔مہاجرین کے دکھ صرف جسمانی نہیں، روحانی بھی تھے۔ کوئی اپنی عبادت گاہ پیچھے چھوڑ آیا، کوئی اپنی کھیتیاں، اور کوئی اپنی پرانی محبت۔ جن گلیوں میں بچپن کے کھیل کھیلے جاتے تھے، وہ آج پرائی لگتی ہیں۔ ایک پوری نسل ہے جو اپنی جڑوں کو صرف والدین کی آنکھوں کے آنسوؤں اور کہانیوں میں ڈھونڈتی ہے۔کشمیر کی وادی صدیوں سے امن، محبت اور ثقافت کا گہوارہ رہی ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں برف پوش پہاڑ، بہتے چشمے اور کھلتے شگوفے انسان کو سکون بخشتے ہیں۔ مگر اسی وادی نے ۱۹۹۰ میں ایسا زخم کھایا کہ آج تین دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی وہ ناسور تازہ ہے۔