
فہد بن سمیع
کراچی ۔ جیو نیوز کےجواں سال کیمرہ مین فہد بن سمیع برین ہیمرج کے باعث اچانک انتقال کر گئے۔۔ قریبی دوستوں کے مطابق کیمرہ مین مالی پریشانی کا شکار تھے اسی وجہ سے ان کا برین ہیمرج ہوا ۔ فہد کی موت پر سوشل میڈیا پر کئی تحریریں گردش کررہی ہیں ۔
محسن ضیاء کی تحریر ۔۔۔
ابھی فیس بک پر ایک انتہائی افسوسناک خبر نظر آئی کہ جیو نیوز کے جواں سال کیمرہ مین فہد بن سمیع مالی پریشانیوں کے باعث برین ہیمرج کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار گئے۔ یہ پڑھ کر دل دہل گیا اور وہ دن یاد آگئے جب ہم جیو میں ایک ہی وین میں سفر کرکے گھر جاتے۔ میں نے گلشنِ حدید جانا ہوتا تھا اور وہ دو تین دوسرے ساتھیوں کے ساتھ کورنگی اتر جاتے تھے۔ غالباً دوہزار بارہ کی بات ہے، مختصر سا سفر ہوتا تھا لیکن چونکہ روز کا ساتھ تھا تو اچھی بات چیت تھی۔
میڈیا میں آنے کے بعد سب سے زیادہ حیرت انگیز اور تکلیف دہ حقیقت جس کا سامنا مجھے ہوا، وہ لوگوں کی تنخواہیں تھیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ ساتھی، جو مجھ سے پانچ چھ سال پہلے اس میدان میں قدم رکھ چکے تھے، وہ بھی مجھ سے کم تنخواہ میں زندگی گزار رہے تھے۔ اور یہ صورتحال کسی چھوٹے ادارے میں نہیں بلکہ جیو جیسے بڑے چینل میں تھی۔ سوچ کر بھی افسوس ہوتا ہے کہ ایک بڑی اسکرین پر چلنے والی خبریں اور پروگرام بنانے والے وہی لوگ تھے، جو پس منظر میں دن رات محنت کر کے بھی مشکل سے اپنے گھروں کا چولہا جلاتے تھے۔
میں خود بار بار حیرت زدہ رہتا تھا کہ آخر کوئی شخص پانچ، دس یا پندرہ سال اس میدان میں گزارنے کے بعد بھی اتنی قلیل تنخواہ پر کیسے کام کر سکتا ہے۔ اس وقت بھی کئی کیمرہ مین اور سب ایڈیٹرز دس سے بارہ ہزار روپے پر کام کرتے تھے۔ فہد بن سمیع کی موجودہ تنخواہ صرف 37 ہزار روپے تھی، جبکہ وہ برسوں پہلے شادی شدہ اور غالباً دو بچوں کے والد بھی تھے۔ ذرا سوچئے کہ اتنی کم آمدنی میں ایک گھر کیسے چلتا ہوگا؟ کرایہ، بل، بچوں کی تعلیم اور باقی اخراجات… یہ سب کسی معجزے سے کم نہیں۔
یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے احساس ہوا کہ یہ میدان میرے لئے مناسب نہیں۔ میں نے رین سال بعد ہی میڈیا کو چھوڑ دیا اور اپنے کام کا آغاز کیا، مگر میرے وہی ساتھی آج بھی اسی تنخواہ پر یا معمولی اضافے کے ساتھ گزر بسر کر رہے ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں جنہوں نے پندرہ سال پہلے اپنا کریئر شروع کیا تھا اور آج بھی 30 سے 35 ہزار ماہانہ میں کام کر رہے ہیں۔
اس سارے المیے میں قصور صرف جیو جیسے اداروں کا نہیں۔ یقیناً چینلز نے اپنے ملازمین کا استحصال کیا، لیکن معذرت کے ساتھ یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ اس میں صحافی برادری خود اور ان کی نمائندہ تنظیمیں بھی برابر کی شریک ہیں۔ کراچی پریس کلب اور دیگر صحافتی ادارے اس نظام کا حصہ ہیں۔ میں خود کراچی پریس کلب جاتا رہتا ہوں، وہاں کینٹین میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے کی سبسڈی دی جاتی ہے تاکہ صحافیوں کو دو تین سو روپے میں بہترین کھانا مل سکے۔ وہ بھی خوش ہو جاتے ہیں کہ کم از کم کھانے پینے میں آسانی ہے، لیکن اس خوش فہمی میں اصل مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے۔
اگر یہی وسائل صحافیوں کی تربیت اور ان کی نئی مہارتوں پر خرچ ہوں تو حالات بدل سکتے ہیں۔ سوچئے، اگر کسی رپورٹر، سب ایڈیٹر یا کیمرہ مین نے 10 سے 15 سال تک سٹوری میکنگ، ویڈیو ایڈیٹنگ یا کانٹینٹ، نیوز رائیٹنگ کا تجربہ حاصل کیا ہے تو بجائے اسے سبسڈی والا کھانا کھلانے کے، کیوں نہ اسے ایک اچھا سا کورس کروایا جائے، ایک معقول کیمرہ یا لیپ ٹاپ دے دیا جائے؟ تین چار مہینے کی محنت کے بعد وہ خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس ذلالت بھری نوکری کو خیر باد کہہ کر اپنی صلاحیتوں کے بل پر روزگار کما سکتا ہے اور اپنے خاندان کو ایک باعزت زندگی دے سکتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ سوچ ہی پیدا نہیں کی جاتی۔ ہم نے خود کو اس استحصالی نظام کا قیدی بنا لیا ہے۔ چینلز اپنے مفاد میں ملازمین کو استعمال کرتے ہیں، اور صحافی تنظیمیں معمولی مراعات دے کر انہیں خاموش رکھتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کئی سالوں سے لوگ انہی حالات میں پس رہے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ مطمئن بھی ہیں۔
آج کے زمانے میں صرف ٹی وی چینلز ہی ذریعہ نہیں رہے۔ اگر کوئی چاہے تو:
ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے بہترین اور حلال طریقے سے پیسے کمایا جا سکتا ہے ۔
فری لانسنگ کے ذریعے مختلف عالمی پلیٹ فارمز پر اپنی سروسز پیش کی جا سکتی ہیں۔
کاروباری یا تدریسی مواقع بھی ایک مضبوط آپشن ہیں۔ میڈیا کے تجربے کو ٹریننگ یا کنسلٹنسی کی شکل دی جا سکتی ہے۔
سوشل میڈیا مارکیٹنگ اور کانٹینٹ کری ایشن اب اتنا وسیع شعبہ ہے کہ یہاں محنت کرنے والے کے لئے آمدنی کی کوئی حد مقرر نہیں۔
یوٹیوب، ٹک ٹاک اور فیس بک مانیٹائزشن کے ذریعے نوکری سے دس گنا زیادہ پیسا کمایا جا سکتا ہے۔
فہد بن سمیع کی موت ایک تلخ حقیقت ہے، مگر اس سے سیکھنے کا وقت ہے۔ اب یہ فیصلہ صحافیوں کو خود کرنا ہوگا کہ ایسے ہی بڑے چینلز کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوتے رہیں گے یا عملی قدم اٹھاتے ہوئے خود اپنے لئے بھی کچھ کریں گے۔
منزہ صدیقی کی پوسٹ ۔۔
لکھتی ہیں: جیو نیوز کا کیمرہ مین فہد بن سمیع دنیا سے رخصت ہوا۔ کاغذ پر تو وجہِ موت برین اسٹروک لکھی جائے گی لیکن اصل وجہ تنخواہوں کا استحصال اور وہ مالی دباؤ تھا جس نے ایک پروفیشنل کو مزدور سے بھی کم تنخواہ پر جینے پر مجبور کیا۔ فہد نے جیو کو 13–14 سال دیے مگر اُس کے ساتھیوں کے مطابق اُس کی تنخواہ صرف 38 ہزار روپے تھی۔ ایک تربیت یافتہ کیمرہ مین، دہاڑی دار مزدور سے بھی کم پر گزارہ کر رہا تھا۔ حالات اس حد تک بگڑ گئے کہ بیوی بچوں کے کھانے کے لالے پڑ گئے۔ اسی پریشانی میں اُس کا بلڈ پریشر آسمان کو چھونے لگا اور بالآخر برین اسٹروک نے اُس کی جان لے لی۔ بیوی، بچوں کو لے کر میکے گئی ہوئی تھی، وہ گھر پر اکیلا تھا، ہسپتال لے جانے والا کوئی نہیں تھا۔ ایک دن بعد مالک مکان کو خبر ہوئی، پھر والد تک پہنچی اور یوں جیو نیوز کو اپنے ہی ملازم کی موت کا پتہ ایک دن بعد چلا۔ فہد کی عمر بمشکل 35 برس تھی۔ اُس نے اپنے کیریئر کا آغاز ’جیو مدد‘ میں بطور trainee کیا، جہاں میں اُس کی ٹرینر تھی۔ کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ وہ ایک چائلڈ اسٹار بھی رہا، بچپن میں کئی ڈراموں میں اداکاری کی، شاید اسی لیے بہت حساس تھا۔ ’جیو مدد‘ کے بند ہونے پر اُسے کراچی بیورو میں بطور کیمرہ مین رکھ لیا گیا، لیکن کئی سال کی محنت کے باوجود اُس کی تنخواہ نہیں بڑھی۔ فہد کی موت سے میڈیا انڈسٹری کا ضمیر ایک بار پھر کٹہرے میں کھڑا ہے۔ اللہ فہد کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ آمین۔