
تحریر… شبیر ڈار
بھارت کی بد نام زمانہ تہاڑ جیل اور پاکستان کی اڈیالہ جیل دونوں ممالک کی مشہور جیلیں ہیں اور ہمیشہ خبروں میں رہتی ہیں، تہاڑ جیل میں معروف کشمیری لیڈر یاسین ملک قریبا 7 سال سے قید ہیں اور اڈیالہ جیل میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ 2 سال سے قید ہیں، دونوں رہنماوں میں کیا مشترک ہے اس پر بات آگے چل کے ہوگی پہلے یاسین ملک کو قید کرنے کی وجوہات اور کیسز کی تفصیلات آپ کے سامنے رکھتے ہیں،
کشمیر کی آزادی کے مطالبے پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے پر بھارت سرکار نے یاسین ملک کو جھوٹے مقدمات میں پھنساکر تہاڑ جیل میں قید رکھا ہے اور بھارت کی نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی NIA نے اب انکی سزائے موت کیلئے دلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے، گزشتہ روز یاسین ملک کو وڈیو لنک کے ذریعے تہاڑ جیل سے عدالت پیش کیا گیا، پیشی کے موقع پر انکی ایک تصویر لیک ہوئی ہے جو سوشل میڈیا پر وائرل ہے، یہاں یہ بتانا ضروری ہے یاسین ملک اپنے کیسز کا دفاع خود کررہے ہیں، بھارتی ایجنسیوں کے ڈر سے کوئی وکیل انکا کیس لینے کی ہمت نہیں کررہا۔
بھارت کی نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی (NIA) نے یاسین ملک کو جنوری 2019 میں سرینگر سے گرفتار کیا، NIA نے یاسین ملک کے خلاف درج مقدمے میں تین بڑے الزامات عائد کئے، جس میں TERROR فنڈنگ، ریاست کا امن تباہ کرنے اور کشمیری پنڈتوں کو گن پوائنٹ پر کشمیر بدر کرنے کے الزامات شامل ہیں، یاسین ملک کے خلاف چالان میں جن کالے قوانین کا سہارا لیا گیا ان میں پبلک سیفٹی ایکٹ، UAPA اور IPC کی مختلف دفعات شامل ہیں، ان قوانین کا نفاذ زیادہ تر کشمیر میں ہی ہوتا ہے، UAPA کا ایکٹ ریاست کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں سے متعلق ہے جبکہ IPC ہندوستان کا آفیشل کریمینل لاء ہے، یاسین ملک کے خلاف درج مقدمے کا ٹرائل دلی کے ایڈیشنل سیشن جج پروین سنگھ کی عدالت میں چلایا گیا، مقدمے کا ٹرائل مکمل ہونے پر 27 مئی 2022 کو ایڈیشنل سیشن جج پروین سنگھ نے یاسین ملک کے خلاف دائر کیس کا 20 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ سنایا، عدالت نے یاسین ملک کو عمر قید کی سزا سنائی۔
عدالتی فیصلے میں جو بڑی دلچسپ بات ہے وہ یاسین ملک کے اثاثوں سے متعلق ہے، NIA نے خود تسلیم کیا ہے کہ یاسین ملک کی ماہانہ آمدنی پچاس ہزار روپے ہے، انکے آبائی گاؤں (زولنگام) کوکر ناگ میں انکی گیارہ کنال زمین ہے جس کی مالیت موجودہ پراپرٹی ویلیوز کے مطابق 55 لاکھ روپے ہے، این آئی اے کے مطابق یاسین ملک نے کچھ سال قبل اپنی گیارہ کنال زمین میں سے 4 کنال زمین بیچ کر اپنی ہمشیرہ جو کہ طلاق شدہ ہے کے بیٹے کیلئے ایک دکان خریدی جو فی الوقت یاسین ملک کی عمر رسیدہ والدہ اور ہمشیرہ کی آمدن کا واحد ذریعہ ہے۔ عدالت نے این آئی اے کی جس چارج شیٹ کو بنیاد بناکر فیصلہ سنایا اس چارج شیٹ میں لکھا ہے کہ یاسین ملک کا کوئی بینک اکاؤنٹ ریاست کے کسی بینک میں نہیں، انکے پاس تین منزلہ خستہ حال پرانا گھر ہے جہاں انکی معمر والدہ اور ہمشیرہ رہتی ہیں، سوال یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جسکے پاس نہ کوئی بینک اکاونٹ ہے، نہ کوئی بڑا کاروبار، نہ کوئی زمین جائیداد نہ ہی کوئی بنگلہ گاڑی، وہ ٹیرر فناسنگ میں کیسے ملوث ہوسکتا ہے؟ اب بھارتی انٹیلیجنس ایجنسی NIA نے یاسین ملک کی عمر قید کو سزائے موت میں تبدیل کرنے کیلئے دلی ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے، درخواست میں NIA نے موقف اختیار کیا ہے کہاں چونکہ یہ ثابت ہے یاسین ملک ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں لہذا ایسے شخص کو عمر قید نہیں سزائے موت ہونی چاہیئے، دلی ہائی کورٹ کے جسٹس وویک چودھری اور جسٹس شلندر کور پر مشتمل ڈویژن بنچ نے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ یاسین ملک کے خلاف سزائے موت کی درخواست پر ان سے چار ہفتوں میں جواب مانگا تھا، عدالت نے یاسین ملک کو نوٹس جاری کرکے تہاڑ جیل حکام کو ہدایت کی تھی کہ آئندہ سماعت پر یاسین ملک کو وڈیو لنک پر عدالت پیش کیا جائے، گزشتہ روز جب یاسین ملک کو عدالت پیش کیا گیا تو جیل سے وڈیو لنک پر انکی ایک تصویر سامنے آگئی جو وائرل ہوئی، کوئی شک نہیں بھارتی حکومت نے یاسین ملک کی سزائے موت کا بندوبست کر رکھا ہے کیونکہ کشمیر میں یاسین ملک اب ایک واحد آواز اور بڑے قد کا لیڈر ہے جسے بھارت سرکار خائف ہے اور یاسین ملک آزادی کے مطالبے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں، بدقسمتی یہ بھی ہے پاکستان اس اہم مسلے کیلئے کوئی سفارتی کوشش بھی نہیں کر رہا۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور یاسین ملک کی قید سے متعلق صرف ایک بات مشترک ہے اور وہ دونوں رہنماوں کی تصاویر وائرل ہونا ہے ورنہ دونوں کے مقاصد، منزل اور عزائم کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں،
عمران بھی دو سال سے زائد عرصے سے اڈیالہ جیل میں قید ہیں، گزشتہ سال 16 مئی کو عمران خان کو جب ایک کیس میں وڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ پیش کیا گیا تو عمران خان کی پیشی کے موقع پر بھی انکی ایک تصویر لیک ہوئی جو سوشل میڈیا پر بڑی وائرل ہوئی، عمران خان کی لڑائی اس نظام حکومت سے ہے جس کے وہ سربراہ بھی رہے ہیں اور اس نظام حکومت کے تحت ایک صوبے میں انکی جماعت ایک صوبے میں 15 سال سے حکمرانی کررہی ہے، عمران خان نے پاکستان میں رائج نظام حکومت کو ٹھیک کرنے کیلئے حقیقی آزادی کا نعرہ لگایا ہے، عمران خان اور انکی جماعت کے بقول انکے خلاف درج تمام مقدمات جھوٹے اور سیاسی ہیں لیکن اسے کے باوجود عمران خان اسی نظام حکومت کے تحت قائم عدلیہ اور دیگر اداروں سے ریلیف کی امید بھی رکھتے ہیں، کسی نظام کا حصہ ہوکر اس نظام سے سیاسی لڑائی لڑنا اور بات ہے جبکہ ایک مضوبط اور عالمی سطح پر اثر و رسوخ رکھنے والے مضبوط نظام کو چیلینج کرکے اسے مکمل آزادی کا مطالبہ کرنا دوسری بات ہے، تہاڑ جیل کے قیدی نے یہ جانتے ہوئے سیاسی اور معاشی طور پر مضبوط ملک کو چیلینج کیا ہوا ہے اور اسے معلوم ہے اسکے نتائج انکی سزائے موت کی صورت میں برآمد ہوسکتے ہیں، لیکن تمام تر مشکلات کے باوجود تہاڑ جیل کا قیدی ہار ماننے کو تیار نہیں نہ کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار ہے، یہی وجہ ہے بھارتی حکومت کے پاس انہیں پھانسی پر چڑھانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نظر نہیں آرہا، اڈیالہ جیل کے قیدی کی لڑائی سیاسی لڑائی ہے یہی وجہ ہے وہ کبھی اپنے نظام حکومت کے ساتھ بات کرنے کیلئے مذاکرات کی میز پر بیٹھ جاتا ہے کبھی پس پردہ مذاکرات کو ترجیح دیتا ہے، ہاں دونوں رہنماوں کی جیل سے لیک تصاویر میں ضرور مماثلت دیکھی جاسکتی ہے۔