
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام احتجاج
تحریر ۔۔۔ ضیغم عباس
حالیہ انکشافات نے بلوچ یکجہتی کمیٹی اور کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے درمیان تشویشناک روابط کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق بی وائے سی نے شدت پسند سرگرمیوں کی حمایت کی، جنگجو فراہم کیے اور “لاپتہ افراد” کے عنوان سے جھوٹا بیانیہ پھیلا کر حکومتی اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کی،اس تنازعے کا مرکز صہیب بلوچ عرف صہیب لانگو ہے، جو بی ایل اے کا جنگجو تھا اور 22 جولائی 2024 کو قلات میں ایک انٹیلی جنس آپریشن کے دوران مارا گیا۔ کچھ مبینہ فوٹیجز میں لانگو کو بی وائی سی رہنما مہرنگ بلوچ کے ساتھ احتجاجی ریلیوں میں شریک اور ان کے پیچھے بطور باڈی گارڈ موجود دکھایا گیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق لانگو کو “مسلح اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے حلقوں میں جڑا ہوا” بھی قرار دیا گیا تھا

اس واضح تعلق کے باوجود، علیحدگی پسند سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے 2024 میں انہیں “لاپتہ شخص” قرار دے کر پاکستانی اداروں پر اغوا کے الزامات عائد کیے۔ تاہم بعدازاں بی ایل اے نے اپنے بیان میں اعتراف کیا کہ لانگو ایک سال قبل ان کے مسلح ونگ میں شامل ہوا تھا اور “انقلاب کے لیے اپنی جان قربان کی۔” یہ اعتراف نہ صرف لاپتہ افراد کے بیانیے کو جھوٹا ثابت کرتا ہے بلکہ باقی کیسز پر بھی سوالات اٹھاتا ہے جنہیں بی وائی سی پیش کر رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ معاملہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بی وائی سی کے احتجاج اور ریلیاں شدت پسند گروہوں کے لیے ممکنہ بھرتی کا ذریعہ بن رہی ہیں، جہاں سے سرگرم کارکن جنگجو میں بدل جاتے ہیں۔ لانگو کا بی وائی سی کے مظاہروں سے بی ایل اے کے مسلح جنگجو تک کا سفر اسی پیٹرن کو اجاگر کرتا ہے،سوشل میڈیا پر اس انکشاف پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا: “اب کیا یہ واضح نہیں ہو گیا کہ باقی لاپتہ افراد کہاں ہیں؟” مبصرین کا کہنا ہے کہ بی وائی سی انسانی حقوق کے نام پر مظلومیت کا بیانیہ بنا کر شدت پسندی کو چھپاتی ہے، جس سے نہ صرف سیکیورٹی کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ حقیقی انسانی حقوق کی وکالت بھی متاثر ہوتی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق مہرنگ بلوچ جیسے رہنماؤں نے “لاپتہ افراد” کے معاملے کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن لانگو کی حقیقت سامنے آنے کے بعد بی وائی سی کی “معصومیت” کا بیانیہ بکھرتا دکھائی دیتا ہے، اور یہ تنظیم انسانی حقوق کے بجائے علیحدگی پسند ایجنڈے کے پرچارک کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔
فی الحال حکومت کی جانب سے اس پر باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔ تاہم ان انکشافات کے بعد امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بی وائی سی کے آپریشنز اور فنڈنگ ذرائع کی از سرِ نو تحقیقات کی جائیں گی۔ ماہرین کے مطابق یہ معاملہ بلوچستان میں بڑھتی بے چینی کے تناظر میں شفافیت اور احتساب کی ضرورت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔