
پی ایم ڈی سی کی خاموشی طلبہ کے لیے موت جیسی اذیت بن گئی ہے
پاکستان میں چار سے پانچ ہزار طلبہ، جو مختلف ممالک کی میڈیکل یونیورسٹیوں سے گریجویٹ ہو کر وطن واپس لوٹے ہیں، اس وقت شدید غیر یقینی صورتحال میں ہیں۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) نے اچانک فیصلہ کرتے ہوئے پی آر ایم پی کا اجرا روک دیا ہے۔ یہ فیصلہ نہ کسی پیشگی اطلاع کے تحت کیا گیا اور نہ ہی باضابطہ نوٹیفکیشن جاری ہوا، جس کے باعث ہزاروں طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔
طلبہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے کئی قیمتی سال اور کروڑوں روپے خرچ کر کے ڈگریاں حاصل کیں، لیکن وطن واپس آ کر اپنے کیریئر کے دروازے بند پاتے ہیں۔
ایسے ہی ایک طالبعلم "رافع شیر”، جنہوں نے انٹرنیشنل یونیورسٹی آف کرغیزستان سے ایم بی بی ایس مکمل کیا، نے “دی مائنڈ ڈاٹ پی کے” سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
> "میں نے اپنی ڈگری حاصل کرنے کے لیے تقریباً ایک کروڑ روپے خرچ کیے اور پانچ سال زندگی کے دیے۔ لیکن اب پی ایم ڈی سی کی پالیسیوں نے ہمیں بے یار و مددگار کر دیا ہے۔ انسان سوچتا ہے کہ اتنی محنت اور سرمایہ لگانے کے بعد آخر جائے تو کہاں جائے؟”
اسی طرح ایک طالبہ جن کا تعلق “گوجرانوالہ” سے ہے اور جن کے والدین چھوٹے کاروبار سے وابستہ ہیں، نے بتایا کہ انہوں نے تقریباً “90 لاکھ روپے” خرچ کیے۔ "اتنے پیسے اور پانچ سال لگانے کے بعد بھی ہمیں ہاؤس جاب کے لیے پی آر ایم پی نہیں دیا جاتا، تو ہم اپنے آپ کو بوجھ محسوس کر رہے ہیں۔”
ان کے والدین کا کہنا تھا کہ اولاد کی تعلیم کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں، لیکن اگر یہی صلہ ملے تو یہ سراسر ناانصافی ہے۔
انہی متاثرہ طلبہ میں ایک طالبعلم جن کا تعلق “ناروال” سے ہے اور ان کے والدین والدین ٹیچر ہیں، نے پی ایم ڈی سی پر تنقید کرتے ہوئے کہا "جب ہم بیرونِ ملک تعلیم کے لیے جا رہے تھے تو بتایا گیا تھا کہ رجسٹرڈ یونیورسٹی سے ڈگری کرنے پر پی آر ایم پی ضرور ملے گی اور ہم ہاؤس جاب کے اہل ہوں گے۔ لیکن اب پی ایم ڈی سی اپنے ہی رولز کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔”
کئی دیگر متاثرہ طلبہ و طالبات نے بھی بتایا کہ انہوں نے “80 لاکھ سے ایک کروڑ روپے” خرچ کر کے تعلیم مکمل کی، مگر وطن واپس آتے ہی پی ایم ڈی سی کے نئے اور غیر واضح قوانین نے ان کے خوابوں کو توڑ دیا۔
طلبہ کا کہنا ہے کہ پی ایم ڈی سی کی جانب سے بار بار وضاحتیں دی جاتی ہیں، مگر کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آتا۔ روز بروز بدلتی پالیسیوں نے ان کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا ہے۔
"یہ معاملہ صرف ہمارے ذاتی مستقبل تک محدود نہیں بلکہ ملک کے پورے میڈیکل سسٹم کے لیے بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اگر ہزاروں ڈاکٹر غیر یقینی صورتحال میں پھنسے رہے تو صحت کی سہولیات مزید متاثر ہوں گی۔”
جب “دی مائنڈ ڈاٹ پی کے” نے اس حوالے سے پی ایم ڈی سی حکام سے رابطہ کیا تو ادارے کی جانب سے کوئی واضح لائحہ عمل پیش نہیں کیا گیا۔ صرف یہ کہا گیا کہ "اس حوالے سے جلد نوٹیفکیشن جاری کر دیا جائے گا۔”
تاہم متاثرہ طلبہ کا کہنا ہے کہ ایسے وعدے کئی ماہ سے کیے جا رہے ہیں، لیکن عملی اقدامات تاحال سامنے نہیں آئے۔