
کٹھمنڈو ۔۔۔ نیپال میں جنریشن زیڈ کی تحریک بھارت کی علاقائی بالادستی کے عزائم کا شاخسانہ ہے، جسے بھارتی میڈیا اور حکومت منظم انداز میں ہوا دے رہے ہیں۔یہ صرف احتجاج نہیں، بلکہ خطے میں بھارتی مداخلت کی ایک اور واضح مثال ہے۔
بھارت ہندوتوا نظریے کے تحت خطے میں بالادستی قائم کرنے کے لیے ہمسایہ ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے، جس کا مقصد سیاسی عدم استحکام اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہے۔اس کی تازہ مثال نیپال ہے جہاں حالیہ دنوں جنریشن زیڈ کی احتجاجی تحریک زور پکڑ چکی ہے، جس کے دوران سوشل میڈیا پر پابندیوں کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ ان مظاہروں میں جھڑپوں کے نتیجے میں کم از کم 14 افراد ہلاک ہو چکے ہیں،
بھارتی ذرائع ابلاغ خصوصاً "انڈین ایکسپریس” ان مظاہروں کو غیر معمولی کوریج دے رہے ہیں، جس سے یہ تاثر گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ بھارت ان تحریکوں کو ایک منظم ایجنڈے کے تحت ابھار رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ تمام اقدامات بھارت کی علاقائی بالادستی کے اس ایجنڈے کا حصہ ہیں، جو وہ طویل عرصے سے اپنے ہندوتوا نظریے کے تحت نافذ کرنا چاہتا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بھارت نے کسی ہمسایہ ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت کی ہو۔ 2019 میں بھارت نے نیپال کے کالاپانی، لیپولیخ اور لمپیادھورا علاقوں کو اپنی حدود میں شامل کر کے نقشے جاری کیے، جس پر نیپال نے شدید احتجاج کیا۔ اس کے علاوہ مالدیپ میں "بھارت نکل جاؤ” (India Out) تحریک اسی مداخلت کا ردعمل تھی، جس میں اعلیٰ حکومتی عہدیداروں نے بھارتی وزیر اعظم کو نہایت توہین آمیز القابات سے بھی یاد کیا۔
بنگلہ دیش میں بھارت کی سیاسی مداخلت کے نتیجے میں شیخ حسینہ حکومت کو مسلسل حمایت حاصل رہی، جب کہ آبی تنازعات جیسے "تیستا دریا” اور "سندھ طاس معاہدے” کی معطلی بھارت کی "آبی جارحیت” کی واضح مثالیں ہیں۔