
روپورٹ ۔۔۔مقصود منتظر
نیپال کو ایشیا کا "آخری شنگریلا” بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہاں کی قدرتی خوبصورتی، پہاڑی سلسلے، اور پرسکون ماحول اسے ایک ایسی مثالی دنیا سے تشبیہ دلاتا ہے جو ہم نے شنگریلا کی کہانیوں میں سنی ہے۔ شنگریلا ایک خیالی جنت ہے جس کا تعلق ہمالیہ کے خوبصورت اور پرسکون خطوں سے ہے۔ لیکن اب اسی پرسکون خطے میں ایسا جوالہ پھوٹا کہ سنبھالنا مشکل ہوگیا ۔۔۔بے روزگاری ، بیڈگورننس ، کرپشن ، کرپٹ سیاستدانوں سے تنگ نوجوان نسل نے وہ کرکے دکھایا جو کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا ۔۔نوجوانوں نے اپنا حق لینے کیلئے ایسا احتجاج کیا کہ وزیر اعظم کو مستعفی ہو کر بھاگنا پڑا۔ اور بھی کئی وزیر و سیاستدان روپوش ہوچکے ہیں ۔

لیکن کیا یہ سب کچھ اچانک ہوا ؟؟؟ یہ اہم سوال ہے ۔۔۔ جس کا جواب اس ویڈیو میں ہے جو دو سال پرانی ہے جس میں سکول کے سالانہ فکشن میں ایک بچہ سٹیج پر تقریر کررہا ہے ۔۔۔ بچے کی بلند اوربارعب آواز پورے ہال میں گونج رہی ہے اور شرکا اسے انہماک سے سن رہے ہیں ۔
میں حیران ہوں اتنی چھوٹی عمر میں اس بچے نے جو تقریر کی وہ شاید بڑے بڑے فنے خان اور جوشیلے سیاستدان یا مذہبی رہنما بھی نہیں کرسکتا ہے ۔ بچہ کا ایک ایک لفظ سننے کے لائق ہے ۔ ایک ایک فقرہ داد دینے کے قابل ہے اور اس سے بڑھ کر اس کا انداز اور اس سے بڑھ کر اس کا اعتماد ۔۔۔ واہ ۔۔ کیا کہنے ۔۔۔
اپنی اسی چھوٹی سی تقریر میں اسکول کایہ سٹوڈنٹ آنے والے سالوں کی پیش گوئی کررہا ہے ۔ یہ تقریر یقینی طور پر ہر نیپالی شہری نے سنی ہوگی ۔۔ اگر اس تقریر کا اثر بنگال کے سرحدوں سے باہر محسوس کیا جاسکتا ہے تو یقینا نیپالی عوام نے بھی اس تقریر کو انقلاب کا آغاز قرار دیا ہوگا ۔
ویڈیو دیکھنے کیلئے لنک پر کلک کریں
بچہ ملک میں بے روزگاری ، کرپشن ، عوام کی محرومی اور سیاست دانوں و حکمرانوں کی عیاشیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے ایسے جذباتی ہورہا ہے جسیے اس کے ننھے کندھوں پر ابھی سے قوم کی بھاری ذمہ داری پڑ چکی ہے ۔ وہ ایک ایک لفظ نہ صرف زبان بلکہ دل و دماغ سے اداکررہا ہے اور سننے والی بھی اسے اسی طرح محسوس کررہے ہیں ۔
میں سوچ رہا ہوں کہ اگر ایک سکول کے بچہ کو اپنے ملک ،قوم اور عوام کی اتنی فکر ہے تو بڑے پڑھے لکھے نوجوانوں ، سنجیدہ طبقے اور عام عوام کا کیا عالم ہوگا ۔۔ تو گویا یہ ایک ٹریلر تھا ۔۔۔ اس کے بعد پوری فلم چلنا تھا جو کچھ دنوں سے جاری ہے ۔