
تحریر: ضمیر احمد ناز
کشمیری عوام ایک بار پھر وہی سوال دہرا رہے ہیں جس کا جواب کوئی سیاسی جماعت دینے کو تیار نہیں، کیا ہمارے حقوق، ہماری قربانیاں اور ہماری جدوجہد صرف کرسی کے کھیل کے لیے استعمال ہورہی ہیں؟
2019 میں دفعہ 370 اور 35A کی منسوخی کے بعد کشمیر کے سیاسی زعماء نے بڑے بڑے دعوے کیے۔ کسی نے ریاستی حیثیت واپس دلانے کا وعدہ کیا، کسی نے روزگار، بجلی اور مفت راشن کا سہارا دیا۔ نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی، اپنی پارٹی، پیپلز کانفرنس — سبھی نے بلند بانگ دعوے کیے۔ لیکن چھ برس گزرنے کے بعد حقیقت عیاں ہے کہ یہ تمام وعدے صرف فریب تھے۔
نہ ریاستی حیثیت واپس آئی، نہ آئینی ضمانتیں بحال ہوئیں، نہ نوجوانوں کو نوکریاں ملیں، نہ عوام کو ریلیف۔ جو کچھ ہوا وہ صرف یہ کہ یہ سیاست دان نئی دہلی کے اشاروں پر ناچنے لگے۔ کبھی گپکار اتحاد کے نام پر عوام کو خواب دکھائے گئے اور کبھی الیکشن جیت کر پھر وہی دہلی دربار کے غلام بن گئے۔
یہ حقیقت اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ کشمیر کی سیاست دہلی کے ہاتھ میں ایک تماشا ہے اور مقامی لیڈر صرف کٹھ پتلیاں ہیں۔ ان کی زبان دہلی کی لکھی ہوئی اسکرپٹ پڑھتی ہے اور ان کی ترجیحات عوامی مسائل نہیں بلکہ اقتدار کی کرسی اور مراعات ہیں۔
آزادکشمیر کے رہنے والے یہ سوال اٹھانے پہ مجبور ہیں کہ وادی کشمیر کے عوامی سیاسی لیڈروں کا اصل ایجنڈا کیا ہے؟ کیا یہ اپنی ریاست کو مزید تقسیم کروانے پر راضی ہیں؟ اگر یہ واقعی کشمیری عوام کے نمائندے ہیں تو انہیں بھارت کے آئینی جال میں الجھنے کے بجائےحق خودارادیت رائے کے مطالبے کو زندہ رکھنا چاہیے اور ریاست جموں و کشمیر کی وحدت کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔ لیکن افسوس کہ یہ لیڈر دہلی کی خوشنودی کے لیے اپنی زبان بھی بیچ چکے ہیں۔
کیا یہ وہی قیادت ہے جو عوامی جذبات کی ترجمان کہلانے کی دعویدار تھی؟ افسوس کہ یہ لوگ اب کشمیریوں کے خون پر سودے بازی کرتے ہیں۔ شہداء کی قبریں خاموش احتجاج کررہی ہیں اور یہ زعماء بھارت کی گود میں بیٹھے وزارتوں اور مراعات کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
کشمیر کے عوام نے بار بار ووٹ دے کر اعتماد کیا، لیکن ہر بار جواب دھوکے اور مایوسی کی صورت میں ملا۔ اب کشمیری نوجوانوں کا سوال ہے: آخر کب تک؟ کیا ہم ہمیشہ ان سیاسی غلاموں کے رحم و کرم پر رہیں گے جو دہلی کے دربار سے اشارے لیتے ہیں؟
اصل حقیقت یہی ہے کہ آج جموں و کشمیر کی سیاسی قیادت بھارت کی مکمل غلام بن چکی ہے۔ ان کے پاس نہ کوئی سیاسی جرات باقی ہے، نہ عوامی درد۔ اگر عوام نے خود بیداری نہ دکھائی تو یہ غلامانہ سیاست نسلوں کو تاریکی میں دھکیل دے گی۔
اب وقت آ گیا ہے کہ کشمیری عوام خواب و فریب کے جال سے نکلیں، اپنی سیاسی قیادت کا سخت محاسبہ کریں اور دہلی کے غلاموں کو مسترد کریں۔ ریاست کی بقا صرف اس وقت ممکن ہے جب ہم رائے شماری کے اصولی موقف پر ڈٹ کر ریاست جموں و کشمیر کی وحدت کے لیے اجتماعی آواز بلند کریں۔ یہی شہداء کے لہو کا تقاضا ہے اور یہی ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل۔