
سیلاب کی وجہ محکمہ موسمیات کی غلط پیش گوئیاں ہیں
اسلام آباد :راجہ سہیل سرفراز۔۔۔۔۔۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کا اجلاس محمد عتیق انور کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں حالیہ سیلابی صورتحال، گلیشیئرز کے پگھلنے سے پیدا ہونے والے فلیش فلڈز اور آئندہ کی حکمتِ عملی پر غور کیا گیا۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ فلڈز پر وزارت سے بریفنگ ضروری ہے اور ارلی ڈیٹیکشن سسٹم کے بارے میں جاننا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اجلاس میں سندھ طاس معاہدے پر ان کیمرہ بریفنگ لینے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
فیڈرل فلڈ کمیشن کے مطابق پانی کا اسٹوریج 98 فیصد تک پہنچ چکا ہے تاہم آبی گزرگاہوں اور پلوں کی تعمیرات کے باعث پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ حکام نے کہا کہ موجودہ سیلاب میں پانی زیادہ آیا لیکن بہاؤ کم رہا، اس لیے فلڈ میپنگ کو اپ گریڈ کرنا ناگزیر ہے۔
دریائے چناب اور ستلج میں سیلاب، جنوبی پنجاب میں موٹروے اسٹرکچرز متاثر
اجلاس میں محکمہ موسمیات کی کارکردگی زیربحث آئی۔ ارکان شازیہ مری اور میر منور تالپور نے شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ موسمیات کی پیشگوئیاں اکثر غلط ثابت ہوتی ہیں، جس کے باعث عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شازیہ مری نے کہا کہ جس دن محکمہ بارش کی اطلاع دیتا ہے، بارش نہیں ہوتی اور جب کہتا ہے بارش نہیں ہوگی تو بارش ہوجاتی ہے۔
ڈی جی محکمہ موسمیات نے وضاحت کی کہ ملک بھر کے 120 سینٹرز سے ہر گھنٹے ڈیٹا موصول ہوتا ہے اور این ڈی ایم اے کے ساتھ مسلسل رابطہ رہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل ڈیٹا محکمہ موسمیات تیار کرتا ہے جبکہ ماڈل فورکاسٹنگ این ڈی ایم اے کرتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ادارے کا بجٹ 4 ارب روپے اور ملازمین کی تعداد 2430 ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے محکمہ موسمیات کی غلط پیشگوئیوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ادارے کے سسٹمز کا خود جائزہ لینے کا اعلان کیا اور کہا کہ دیکھا جائے گا کہ محکمہ موسمیات کے پاس کون سی ٹیکنالوجی موجود ہے اور پیشگوئیوں میں بار بار غلطی کیوں ہوتی ہے۔