تحریر: محمد اقبال میر

جو قومیں اپنے اسلاف کی قربانیوں کو فراموش کر دیتی ہیں، ان کے مٹنے کا فیصلہ گویا پتھر پر لکیر بن جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ آرام طلب قوموں پر زوال جلد آتا ہے، مغلیہ دور اس کی روشن مثال ہے۔
برصغیر کی تقسیم کے وقت ریاست جموں و کشمیر کا فیصلہ ابھی باقی تھا، تاہم قیامِ پاکستان سے قبل ہی کشمیریوں نے دل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا۔ بھارت نے اسی فیصلے کو بدلنے کے لیے ریاست پر قبضے کی ناپاک کوشش کی۔ 27 اکتوبر 1947 وہ سیاہ دن ہے جب بھارتی فوج نے ریاست کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا اور آج تک وہ قبضہ ایک نہ بھرنے والے زخم کی طرح تازہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے باوجود حقِ خودارادیت کا فیصلہ نہ ہوسکا، جبکہ شملہ معاہدے نے اس مسئلے کو محض دو ممالک کے باہمی اختلاف تک محدود کر دیا، جس کا خمیازہ آج تک کشمیری بھگت رہے ہیں۔
پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کی وکالت کی، ان کی آواز کو عالمی سطح پر بلند رکھا، مگر عالمی برادری کی بے حسی نے بھارتی قبضے کو برقرار رکھا۔ گزشتہ 78 برسوں سے بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں ظلم و ستم کی ایک المناک تاریخ رقم کر رہا ہے۔
24 اکتوبر 1947 کو آزاد حکومت ریاست جموںوکشمیر کا قیام عمل میں آیا اور جنجال ہل کے مقام پر پہلا دارالحکومت قائم ہوا، آزاد جموں و شکمیر حکومت کو ریاست کی نمائندہ حکومت قرار دیا گیا۔ بعد ازاں عبوری ایکٹ 1974 کے تحت مہاجرینِ جموں و کشمیر کے لیے 12 نشستیں مخصوص کی گئیں تاکہ پاکستان میں مقیم کشمیریوں کو بھی نمائندگی حاصل رہے۔ مگر افسوس کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ نشستیں محض علامتی حیثیت اختیار کر گئیں۔ ان نمائندوں کا کردار تحریکِ آزادی سے ہٹ کر ذاتی مفادات اور سیاسی وابستگیوں کے گرد گھومنے لگا۔ اگر وہ اپنے تاریخی فریضے کو سمجھتے تو آج مہاجرین کا تشخص اور سیاسی وقار برقرار رہتا۔
آزاد کشمیر میں قانون کی عملداری اب ایک خواب بن چکی ہے۔ یہاں کا نظام ہمیشہ “جس کی لاٹھی اُس کی بھینس” کے اصول پر چلتا رہا۔ اقربا پروری، برادری ازم اور سفارش کلچر نے اداروں کو کھوکھلا کر دیا۔ عوام کے بنیادی مسائل بجلی، روزگار، تعلیم اور صحت مسلسل نظر انداز ہوتے رہے، یہاں تک کہ صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔
اسی پس منظر میں جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے نام سے تحریک شروع ہوگئی۔جس میں مختلف مکاتب فکر اور نظریاتی کے حامل لوگ شامل ہوئے، عوام کے مسائل بڑھنے لگے ، آزاد جموں و کشمیر میں 20 فیصد سے بھی کم اشرافیہ کو سہولیات دیکھ کر لوگوں نے ایکشن کمیٹی کی طرف راغب ہو کر احتجاج کا راستہ شروع کردیا اور 38 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ حکومتِ آزاد کشمیر کو پیش کیا۔ مگر جیسے ہی یہ تحریک زور پکڑنے لگی، بھارت نے اس پر منفی پروپیگنڈا شروع کر دیا۔ بھارتی میڈیا اور ریاستی ادارے ان احتجاجات کو پاکستان مخالف سرگرمی کے طور پر پیش کر کے یہ تاثر دینے لگے کہ آزاد کشمیر کے عوام حکومتِ پاکستان سے بدظن ہیں۔
یہ بھی افسوسناک حقیقت ہے کہ 05 اگست 2019 کے بعد جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی، اس وقت ایسی ہی کسی منظم عوامی تحریک کی ضرورت تھی جو دنیا کو بتاتی کہ آزاد خطے کے عوام تحریکِ آزادی کے ساتھ مکمل طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے اس سمت میں کوئی اجتماعی اور مربوط لائحہ عمل اختیار نہیں کیا گیا۔ اگر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی جیسی تنظیم اسی جذبے کے ساتھ تحریکِ آزادی کے لیے منظم ہوتی تو یقیناً دنیا کا منظرنامہ مختلف ہوتا۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا احتجاج شدت اختیار کرنے لگا تو وفاقی حکومت کو بالآخر مداخلت کرنا پڑی۔ وزیراعظمِ پاکستان میاں شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے بصیرت، فراست اور قومی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا۔ ان کی کوششوں سے معاہدہ طے پایا اور عوام نے احتجاج ختم کر دیا۔ اس موقع پر کشمیری عوام نے وزیراعظمِ پاکستان اور فیلڈ مارشل کا شکریہ ادا کیا — یہ دراصل اعتماد اور محبت کی وہ لڑی ہے جو پاکستان اور کشمیر کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھتی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ آئے روز کے احتجاج جمہوری نظام کو کمزور کرتے ہیں۔ نفرتیں بڑھتی ہیں اور دشمن مفاد اٹھانے کی بھرپورکوشش کرتا ہے۔ ضروری ہے کہ عوام ایسے نمائندے منتخب کریں جو اسمبلی میں ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں، قانون سازی کریں، اور چیک اینڈ بیلنس قائم رکھیں۔ عوامی قوت اگر درست سمت میں استعمال ہو تو یہ احتجاج کے بجائے ترقی کا زینہ بن سکتی ہے۔
آزاد کشمیر میں مقیم مہاجرینِ جموں و کشمیر کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے حقیقی فریضے کو یاد رکھیں وہ تحریکِ آزادی کے امین ہیں۔ ان کا وجود محض سیاسی نہیں بلکہ تاریخی اور نظریاتی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر وہ بھی اپنے مقصد کو فراموش کر بیٹھے تو تاریخ انہیں بھی معاف نہیں کرے گی۔
آزاد جموں و کشمیر میں مقیم مہاجرین نے ملازمتوں کے کوٹہ بحالی کیلئے عدالت سے رجوع کیا ہے امید ہے کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے گا اور مہاجرین کی بے چینی ختم ہوگی۔
یہاں یہ بات بالکل واضح ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر کے لوگ پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ ان لوگوں نے ہمیشہ نفرتوں کو شکست دی، بغاوت کو اتحاد میں بدلا اور یہ پیغام دیا کہ:“نفرت نہیں، محبتیں بانٹیں — کیونکہ محبت ہی وہ رشتہ ہے جو پاکستان اور کشمیر کو ہمیشہ کے لیے جوڑتا ہے۔”