تحریر ۔۔۔۔۔ مقصود منتظر

آزاد کشمیر کے عوام نےحالیہ احتجاج کے دوران مہاجرین کی بارہ نشستوں سے منتخب ہونے والے ممبران کی وزارتیں ختم اور فنڈز بند کرانے کا مطالبہ بالآخر منوالیا۔ عوامی ایکشن کمیٹی کا بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ ان سیٹوں کو ہی ختم کیا جائے۔ اس مطالبہ کے حق میں کمیٹی کے کور ممبران یہ دلیل پیش کرتے رہے کہ پاکستان میں مقیم مہاجرین کشمیر کے ان بارہ حلقوں سے منتجب ہونے والے ممبران آزاد کشمیر میں حکومت گرانے یا بنانے میں بلیک میلنگ کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ یہ حلقے آزاد کشمیر پر بوجھ ہے کیونکہ ان حلقوں کو بھی ترقیاتی فنڈز دیئے جاتے ہیں مگر وہ فنڈز آج تک زمین پر خرچ ہوتے ہوئے نظر نہیں آئے، سادہ یہ کہ بارہ ممبران ملنے والے فنڈز اپنی اپنی جیبوں میں ڈال کرچپ سادھ لیتے ہیں ۔
فنڈز کہاں جاتے ہیں اور کون خرچ کرتا یا نہیں؟ یہ دلیل کسی حد تک سمجھ آجاتی ہے کیونکہ نہ صرف ان بارہ حلقوں میں بلکہ باقی حلقوں میں بھی ملنے والے ترقیاتی فنڈز آٹے میں نمک کے برابر ہی عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتے ہیں۔ اسی لیے تو بیشتر لوگوں کی رائے ہیں کہ ان حلقوں کے منتخب ممبران کو ناپ طول کر ہی جیب خرچہ دیا جائے ۔
لیکن پہلی دلیل کہ حکومت گرانے یا بنانے میں یہ ممبران استعمال ہوتے ہیں۔ سنجیدہ لوگوں کا اس بات سے ہرگز اتفاق نہیں ہے۔ کیونکہ آزاد کشمیر کی سیاسی تاریخ کچھ اور ہی کہانی بتارہی ہے ۔تاریخ کے اوراق میں بلیک میلروں کے چہرے بھی مختلف ہیں ۔
آزاد کشمیر کی موجوہ حکومت کو ہی دیکھا جائے،تو ایسا لگتا ہے کھیر کی پلیٹ میں تمام بڑی جماعتوں کا چمچہ ہے۔ وزارت عظمی کی کرسی پر پی ٹی آئی کی ٹکٹ پرمنتخب ہونے والے چوہدری انوارالحق براجمان ہیں۔ وہ اگرچہ اب خود کو پی ٹی آئی فاروڈ بلاک کا ممبر کہلاتا ہے تاہم بنیادی طور پر وہ آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی یعنی اپنی ہی پارٹی کی حکومت گرانے میں رول ادا کرچکے ہیں ۔۔
موجودہ حکومتی سٹ اپ میں دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی بھی حصہ دار ہیں۔ اس وقت اسی پارٹی کے چوہدری لطیف اکبر اسپیکر بھی ہیں ،ایک اور رہنما فیصل راٹھور بااثر وزیر ہیں۔ بعض دفعہ ایسا محوس ہوتا ہے کہ اصل وزیر اعظم تو فیصل ممتاز راٹھور ہی ہیں ۔ اس کے ساتھ اس سسٹم میں ن لیگ بھی برابر کی شریک ہے ۔ مسلم لیگ ن نے ہی پی ٹی آئی کی حکومت کیخلاف عدم اعتماد میں اہم رول ادا کیا اور چوہدری انوارالحق کو وزیر اعظم بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا اور تو اور صدر محترم بھی پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما بیرسٹر سلطان ہیں ۔ ان تین بڑی جماعتوں کے ممبران میں سے اگر کوئی وزیر یا مشیر نہیں ہیں تو کم از کم حکومت کے ایوان میں بااثر ضرور ہے ۔ یوں صرف موجودہ سٹ اپ میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ حکومتی کھچڑی صرف مہاجرین ممبران کے ووٹ سے نہیں بنی ۔ بلکہ اس کو پکانے اور تڑکا لگانے میں آزاد کشمیر کے لوکل اور روایتی سیاست دانوں نے ایندھن فراہم کیا ہے ۔ انوارالحق حکومت صرف مہاجرین کی بیساکھی پر کھڑی نہیں ہے بلکہ اس کو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے ہی سہارا دیا ہے اور کندھا فراہم کیا ہے ۔۔ اگر ایسا ہے تو صرف مہاجرین ممبران کو بلیک میلر کیوں کہا جاتاہیں؟ کیا یہ انصاف ہے؟ یہ اصول ہے ؟ کیا یہی دستور ہے؟ یہ یہی رائج قانون ہے ؟

چلیں اب تھوڑا پیچھے چلتے ہیں ۔ موجودہ صدر بیرسٹر سلطان کو آزاد کشمیر کا بچہ بچہ جانتا ہے ۔تعارف کرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ وہ صاحب ہیں جنہوں نے ہر دور میں اقتدار کا مزہ چکھا ہے، وہ بلیک میلر نہیں ہیں البتہ موقعہ پرست ضرور ہیں ۔ اب تک انہوں نے کرسی کیلئے کتنی پارٹیاں بدلیں ۔۔ یہ سوال ان لوگوں کیلئے جو صرف مہاجرین کو بلیک میلر سمجھتے ہیں ۔
راجہ فاروق حیدر بھی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ۔ ریاستی جماعت مسلم کانفرنس کے سینے میں چھرا گھونپنے والا کوئی اور نہیں ، فاروق حیدر صاحب ہی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے بھلا یہ کام عوام کیلئے کیا ہے یا کرسی کیلئے ۔ جواب صاف ہے صرف اور صرف اقتدار کیلئے ۔ لیکن پھر بھی بلیک میلر مہاجر ممبران ہیں ۔۔
آگے چلیں ۔۔ اس حکومت کو بنانے میں فاروق حیدر کا کتنا رول ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ عدم اعتما میں ووٹ دیا اور چوہدری انوار کو کرسی پر بٹھانے میں بھی ووٹ دیا۔ بھلا کیوں؟ کیا انہوں نے یہ کام ریاست کی بھلائی کیلئے کیا ۔۔ ہرگز نہیں ۔ صرف اور صرف اقتدار کیلئے ۔

پیپلز پارٹی اس وقت آزاد کشمیر میں دوسری بڑی جماعت ہے لیکن ایک فاروڈ بلاک کے پیچھے کھڑی ہوگئی ۔ کیا یہی سیاسی اخلاقیات ہے ۔ اپوزیشن میں بیٹھ کر، موجودہ حکومتی چورن ، کو ٹف ٹائم دے سکتی تھی لیکن کرسیاں عزیز ہیں ۔ اقتدار کا نشہ عزیز ہے ۔ جھنڈیاں اور گاڑیاں عزیز ہیں ۔ اور پھر بھی بلیک میلر مہاجرین حلقے ۔۔۔
چونکہ مسلم کانفرنس اور جماعت اسلامی کا وجود خطرے میں ہیں، جب سے مسلم کانفرنس عرش سے فرش پر آگئی ہے تب سے سردار عتیق صاحب کتنی بار ایک سیٹ بھی سودے بازی کرچکے ہیں ۔ جواب ہر کشمیری جانتا ہے ۔
جماعت اسلامی کے سابق امیر عبدالرشید ترابی کی بات کریں تو انہوں نےالیکشن میں ہی اپنا حلقہ سابق وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کی جھولی میں ڈال دیا تھا ۔ انتخابات میں دستبرداری پر سردار الیاس اور رشید ترابی کے درمیان کتنے میں ڈیل ہوئی ؟؟؟ یہ باغ والے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں ۔ لیکن پھر بھی بلیک میلر مہاجر حلقوں کے ممبران ہیں ؟؟
تازہ تازہ سیاست دان سردار تنویر الیاس مختصر ترین عرصے میں کتنی پارٹیاں بدل چکے ہیں ۔ اور کس لیے ۔۔ یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ پبلک سب جانتی ہے لیکن پھر بھی بلیک میلر مہاجر حلقوں کے ممبران ہیں ؟؟؟

آزاد کشمیر پڑھے لکھے لوگوں کا خطہ ہے اور کہاجاتا ہے کہ یہاں کے لوگوں میں سیاسی سوجھ بوجھ خطے کے باقی لوگوں سے زیادہ ہیں لیکن ۔۔۔ بلیک میلنگ کا معاملہ آتا ہے تو یہ لوگ آنکھوں پر پٹی کیوں باندھتے ہیں ۔ یہ لوگ مہاجرین پر انگلی تو اٹھاتے ہیں لیکن اپنے گریبان ( یعنی اپنے حلقوں کے مستقبل سودے بازوں ) میں نہیں جھانکتے ہیں ۔ آخر کیوں ۔۔۔ کیوں ۔۔۔کیوں ؟؟؟؟؟؟؟
ایکشن کمیٹی کے کور ممبران بھی انتہائی پڑھے لکھے لوگ ہیں اور بعض قوم پرست جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ایسے نوجوان ہیں جو کل تک ان سیاست دانوں کو نہ جانے کن کن القابات سے پکارتے تھے لیکن انہوں نے بھی شاید وہ کا عینک پہن رکھی ہے جس میں سے صرف مہاجر حلقوں کے لوگ بلیک میلر نظر آتے ہیں ۔ ایسا کیوں ہے ۔۔ یہ ضرور جواب طلب معاملہ ہے ۔ امید ہے کوئی نا کوئی ممبر اس کا جواب دینے کی زحمت کرے گا ۔۔