تحریر: مجاہد ذاکراللہ

وہ خاموش طبعیت کا مالک ہے، لیکن جہاں بھی اپنے قدم رکھتا ہے گو گائے رستاخیز اٹھاتا ہے۔ ان کی خاموشی میں بلا کا طوفان موجزن ہوتا ہے۔ حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کی زمام کار سنبھالی تو حریت کے بے جان گھوڑے میں بجلی کوندھنے لگی۔
کراچی سے کیرن تک حریت کانفرنس کے پیغام کو عام کرنے کا بیڑہ اٹھایا، پہاڑوں اور بیابانوں میں اس شراب کی سبیلیں لگائی تو نامراد نہ لوٹے۔ حریت کانفرنس کی اکائیوں میں بھی یگانگت اور یک رنگی کی کاوشوں کو بام عروج بخشا۔ کراچی میں مہاجروں، سندھیوں، پٹھانوں، حکومتی، غیر حکومتی، تاجروں اور مزدوروں کو کشمیریوں کی پشت پناہی کے لیے اکٹھا کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ لاہور کی جھلسا دینے والی گرمی میں وہ درجنوں سیاسی مذہبی تنظیمات کے دفاتر گئے۔ اپنے وفدکے ہمراہ انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ کشمیری اس نازک دور میں آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ کہیں وہ دشمن کے طعنوں سے دل برداشتہ نہ ہوں۔
“طعنہ دیں گے بت کے مسلم کا خدا کوئی نہیں“
لاہور سے بانگ رحیل کارواں دی تو آزاد کشمیر کے بلند و بالا پہاڑوں سے ٹکرائی۔ لاہور سے لیپہ پہنچتے پہنچتے غلام محمد صفی کا نہ صرف مورچہ بلکہ لہجہ اور بیانیہ بھی تبدیل ہو کر رہ گیا۔ وہ جو کراچی اور لاہور کی گلیوں میں کشمیر اور کشمیریوں کی نمائندگی کر رہے تھے کیرن اور لیپہ میں پاکستان کا دفاع کرنے میں مصروف رہے۔آزاد جموں کشمیر کے موجودہ حالات کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو لوگوں کی نظروں میں حریت کانفرنس کا یہ ایکٹیوزم اور یہ بیانیہ پاکستانی اشرافیہ کی ان کاوشوں کا حصہ ہے جن کا مقصد کشمیر میں پاکستان کے دفاعی مورچے کو مضبوط کرنا ہے۔
جس کو بقول اُن کے عام لوگوں کی تحریک کی آڑ میں نام نہاد قوم پرست تہس نہس کرنا چاہتے ہیں۔
آزاد جموں کشمیر کے ان تمام لکھے پڑے نوجوانوں باشعور انسانوں کو یہ علم و آگہی ہونی چاہیے کہ نوے کی دہاٸی میں آزاد کشمیر میں بالعموم اور شہر مظفر آباد میں باالخصوص قوم پرستی کا نعرہ بلند کرنے والوں اور الحاق پاکستان کے خوگروں کے درمیان معرکہ آراٸی زوروں پر تھی۔ تاہم مقبوضہ جموں کشمیر میں پاکستان سے والہانہ عقیدت، جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کا بہت جلد عسکریت سے توبہ تاٸب ہونے کی وجہ سے آزاد جموں کشمیر میں قوم پرست کمزورہوکر hibernationمیں چلے گیے۔
یوں حق خود ارادیت اور الحاق پاکستان کا نظریہ رکھنے والےقوم پرستوں پر غلبہ پاگٸے۔
حریت کانفرنس کے کنوینر اور دیگر رفقاء اور بزرگوں نے دفاعی پاکستان کا مورچہ آج ہی نہیں سنبھالا پاکستان کی وکالت اور محبت کا اظہار غلام محمد صفی نے بھارتی سنگینوں کے سائے تلے بھی کیا۔ شہر سوپور کے مصروف ترین چوک میں بھارتی ظالم فوج کی موجودگی میں پاکستان کا پرچم لہرا کر جس عتاب کا وہ شکار ہوئے آزاد فضاؤں میں زندگی گزارنے والے اس کا ادراک نہیں کر سکتے۔
بقول شاعر
”نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے
زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے“
حریت کانفرنس کے کنوینر غلام محمد صفی نے طالب علمی ہی کے زمانے میں ایسی سیاسی کشمکش کے طوفان میں قدم رکھا جہاں ایک طرف بھارتی ظلم و جور کی تند تیز لہریں تھیں تو دوسری طرف حق خود ارادیت،آزادی اور الحاق پاکستان کی باد صبا تھی۔
آزاد جموں کشمیر کے نوجوانوں اور دانشوروں کے علم میں یہ بات ہوگی کہ ریاست کے مقبوضہ خطے میں امتیاز رنگ وخوں، قومیت وطنیت اور ذات پات جیسے سرطان کے مہلک جرثومے پائے نہیں جاتے، یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ ریاست جموں کشمیر میں آج بھی ”ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے“ کانعرہ مقبول ترین نعرہ ہے۔ اور الحاق پاکستان کا sentiment خاصامضبوط ہے۔ غلام محمد صفی نے حق خود ارادیت اور الحاق پاکستان کی وکالت اور قوم پرستی کی مخالفت آج ہی نہیں کی۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب غلام محمد صفی حزب المجاہدین کے امیر ہوا کرتے تھے، تو ان دنوں الحاق اور خود مختاری کی یہ کشمکش زوروں پر تھی۔بحیثیت امیر حزب المجاہدین 90 کی دہائی کے اوائل میں انہوں نے جس انداز اور لہجے میں الحاق پاکستان کی وکالت کی وہ ان ہی کا خاصہ ہے۔ آج کل الحاق پاکستان کے بہت سارے اور بڑے بڑے خوگر چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں ۔حالانکہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے حالات پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ یہ سجدے میں گرنے کے بجائے قیام کرنے کا وقت ہے۔
اگرچہ ہم یہ کہنے میں حق بجانب نہیں ہوں گے کہ وہ تحویل قبلہ کر چکے ہیں،
تاہم اپنی فکری اساس کے حوالے سے نازک وقت میں لب کشائی نہ کرنا بھی بہت سارے سوالات کو جنم دیتا ہے۔!!!
حریت کانفرنس کا یہactivism آزاد کشمیر کے سیاسی أفق پر کون سی جوہری تبدیلی لاسکتا ہے، اور
قوم پرستوں کے جادو کے اثر
کو کس حد تک زاٸل کرسکتا ہے ، وقت ہی بتا دے گا۔ تاہم ایک بات یقین اور وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ، قاٸد انقلاب سید علی گیلانی کی آٸیڈیالوجی کا بھاری بوجھ تندو تیز ہوا میں بھی أ ٹھانے کاحوصلہ رکھتی ہے