تحریر۔۔۔۔۔محمد شمریز خان

سیاسی میدان کیا کشتی لڑنے کا کوئی اکھاڑا ہےیاسیاسی حکمت،تدبر اور فہم و فراست سے مسائل حل کرنے کا پلیٹ فارم؟ ضمنی سوال یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم اور بانی پی ٹی آئی عمرن خان کو درپیش مسائل کا حل یا اس دلدل سے نکلنے کا راستہ کونسا ہے!سیاست یا جسمانی طاقت؟
سیاست کے باب میں تاریخ کا سبق یہ ہے کہ راستہ ہمیشہ سیاست نے نکالا ہے جبر نے نہیں! یہاں سوال یہ بھی ہو گا کہ اگر منزل پر سیاست نے ہی پہنچاناہے تو پھر عمران خان سیاست کیوں نہیں کرتے؟یہ ایسا سوال ہے کہ جس کے بعد پتھراؤ شروع ہو جاتا ہے اور ساتھ میں شیلنگ بھی! اس گھمسان کی دھول میں سوال تو سوال!سوال پوچھنے والا ہی کہیں غائب ہو جاتا ہے۔میدان سیاست میں جب مکالمے کی جگہ ڈنڈا بردار کارکن دندناتے پھرتے ہوں تو پھر یہی کچھ ہو تا ہے جو ہو رہا ہے۔
عمران خان نے نوجوان سہیل آفریدی کو خیبر پختونخوا کا نیا وزیر اعلیٰ نامزد کیا تو ان کے پیش نظر کیا تھا؟یقینا وہی جو عثمان بزدار کو پنجاب،محمود خان اور اور علی آمین گنڈا پور کو ”کے پی“میں نامزد کرنے کے موقع پر تھا،یعنی کے سیاسی خرید و فروخت،ٹکراؤ،مخالفین کو کارکردگی سے نہیں بلکہ زور بازو سے پچھاڑ کر روند دینا وغیرہ۔آج یہاں کون ہے جو اسے سمجھا دے کہ سیاسی میدان اور اکھاڑے کے پہلوانوں کے اہداف الگ ہو تے ہیں،ریسلنگ جسمانی جدوجہد جبکہ سیاست بصیرت کا امتحان ہو تا ہے۔اسی لئے سیاست میں اہمیت فیصلوں کی ہو تی ہے،یہ فیصلے ہی تھے جنھوں نے عمران خان کو یہ دن دکھائے،اور جن کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔
میں آج پھر دہراتا ہوں کہ عمران خان کو سیاست میں سکہ جمانے کیلئے جو ساز گار ماحول ملا وہ شائد کسی دوسرے سیاسی لیڈر کے حصے میں نہیں آیا ”اس کی وضاحت یہاں ممکن نہیں“مشکلات کے باوجود یہ ماحول کسی نا کسی صورت میں اب بھی موجود ہے یا بنایا جا سکتا ہے۔سیاست میں آخری سمجھ کر کھیلی جانیوالی ’‘چال“ بھی حتمی نہیں ہو تی۔سو! اب بھی وقت ہے ایک ”سیاسی چال چل کر تو دیکھو“

سہیل آفریدی کا حلف برداری کے بعد یہ اعلان کہ اب میں ”عشق عمران میں مارا جاؤں گا“واضع طور پر ٹکراؤ اور انتشار کا اعلان ہے!کاش وہ لڑائی کا اعلان کرتے وقت اپنے اس حلف(عہد)پر بھی غور کرتے جو انھوں نے وزارت اعلیٰ کا قلمدان سنبھالتے وقت اپنے رب اور قوم سے کیا تھا۔افسوس اس بات کا ہے کہ وزارت عظمیٰ سے لیکر کسی چھوٹے عہدے تک کوئی بھی عہدیدار اس حلف نامے کو ایک رسمی کارروائی اور عبارت کے طور پر ہی پڑھتا ہے۔اگر کوئی عہدیدار اس حلف پر غور کے بعد اس حلف کے مطابق اپنے فرائض کی ادائیگی کا عہد کرے تو پھر شاہد ہی وہ اپنے ذمہ داریوں کو پہچاننے میں غلطی کرے یا فرائض کی ادائیگی میں غفلت کا مرتکب ہو!ایسے لوگ جو اپنے عہد کی پاسداری کریں ان کیلئے ایسے عہدوں کی ہی کو ئی حثیت نہیں ہو تی۔
سہیل آفریدی کی تقریر اپنے اس حلف کو توڑنے کا واضع اعلان ہے!یہ طرز عمل کسی طور درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔اس کا فائدہ صوبے کو ہے نہ ملک کو!اور نا ہی تحریک انصاف یا عمران خان اس سے کو ئی ریلیف حاصل کر پائیں گے۔یہ وقت پی ٹی آئی کی قیادت اور باالخصوص عمران خان سے انتہائی دانشمندانہ اور دور اندیش فیصلوں کا تقاضا کرتا ہے۔
آج پی ٹی آئی کے کارکن مایوسی کے عالم میں حافظ صاحب سے ہی رحم کی امید لگائے بیٹھے ہیں یا پھرکسی معجزے یا انہونی کے انتظار میں ہیں۔سیاست میں ایسا نہیں ہوتا۔یہاں آپ سیاسی اور جمہوری طرز عمل سے ہی سیاسی ہواؤں کا رخ موڑ سکتے ہیں۔اگر آپ تبدیل شدہ سوچ،نئے عزم اور سیاسی طرز عمل کیساتھ جدوجہد کا حوصلہ رکھ سکتے ہیں تو میرے خیال میں راستہ نکل سکتا ہے۔میرا اس بات پر بھی کامل یقین ہے کہ اگر یونہی آم رانہ طریقہ کار کیساتھ عمران خان کو سیاست سے آؤٹ کرنے کی کو شش کی گئی تو یہ ملک میں سیاسی اور جمہوری عمل کیلئے ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔
ہمارا المیہ ہے کہ یہاں غیر سیاسی رویوں کے باعث”غیر مرئی“قوتوں کو یہ موقع ملا کہ انھوں نے سیاست کے تن نازک میں یوں پنجے گاڑ دیئے کہ ان سے جان چھڑانے کو کو شش میں اپنی جان بھی جا سکتی ہے۔اب سیاست کا امتحان یہ ہے کہ جان چھڑانی بھی ہے اور بچانی بھی!اگر ہم ایک دوسرے کے عشق میں مرنے والے ہی ہیں تو پھر”ایسا ہی ہو گا جیسا ہو رہا ہے“۔”اگے تواڈی مرضی“