سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کب بند ہو گا
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنوینر شاہدہ اختر علی کی زیرِ صدارت منعقد ہوا، جس میں وزارتِ خارجہ اور وزارتِ میری ٹائم افیئرز سے متعلق مالی سال 2010-11 اور 2013-14 کے آڈٹ اعتراضات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
اجلاس کے دوران آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ وزارتِ خارجہ نے پابندی کے دوران 87 لاکھ روپے مالیت کی اشیاء کی خریداری وزارتِ خزانہ کی اجازت کے بغیر کی۔ تاہم، انتظامیہ نے وضاحت دی کہ زیادہ تر خریداری پابندی سے پہلے کی گئی تھی، جس پر سیکرٹری خارجہ نے مؤقف اپنایا کہ خریداری کے وقت کوئی پابندی موجود نہیں تھی۔ کمیٹی نے وضاحت تسلیم کرتے ہوئے معاملہ نمٹا دیا۔
وزارتِ میری ٹائم افیئرز کے حوالے سے آڈٹ حکام نے بتایا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) نے 1996 اور 2006 میں 380 ایکڑ زمین دو ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو لیز پر دی، حالانکہ یہ زمین شپنگ اور کارگو سرگرمیوں کے لیے مختص تھی۔ آڈٹ حکام کے مطابق الاٹمنٹ میں ملوث افسران کے خلاف تاحال کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
سیکرٹری میری ٹائم افیئرز نے بتایا کہ معاملہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق کے پی ٹی کی زمین ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے لیے استعمال نہیں ہو سکتی۔ کنوینر شاہدہ اختر علی نے 10 پیسے فی مربع گز سالانہ کے حساب سے زمین دینے کے فیصلے پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ الارمنگ صورتحال ہے۔
چیئرمین کے پی ٹی نے وضاحت دی کہ زمین سی بیڈ پر واقع تھی اور بعد میں ڈیویلپ کی گئی، جب کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر اسٹے آرڈر حاصل کیا جا چکا ہے۔ شاہدہ اختر علی نے ریمارکس دیے کہ "ہم نے تو سنا ہے پانی اپنا راستہ نہیں چھوڑتا” اور استفسار کیا کہ کیا زمین ضرورت سے زیادہ ہونے کے باعث سوسائٹیوں کو دی گئی؟
کمیٹی نے 380 ایکڑ زمین کی الاٹمنٹ پر فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کرنے کی ہدایت جاری کر دی۔