تحریر: عبید بن راشد وانی
کشمیر برِصغیر کی تقسیم کا وہ نامکمل باب ہے جو آج بھی خون کے آنسو روتا ہے۔ 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت، ریاستوں کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کریں یا اپنی خودمختاری کا اعلان کریں۔ مگر ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی خواہشات کو نظرانداز کرتے ہوئے بھارت نے اس ریاست پر غیرقانونی قبضہ کر لیا، جس کے نتیجے میں آج تک لاکھوں کشمیری شہید، بےگھر، یا قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر چکے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں بارہا یہ تسلیم کیا گیا کہ کشمیری عوام کو ریفرنڈم کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن افسوس کہ 7 دہائیاں گزرنے کے باوجود وہ حق آج بھی ایک خواب ہے۔ بھارت ایک جانب خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے، اور دوسری جانب کشمیریوں کی آواز کو بندوق، بارود اور پابندیوں سے دبانے کی کوشش کرتا ہے۔
حقِ خودارادیت کوئی احسان نہیں، یہ اقوامِ متحدہ کا وعدہ اور کشمیری عوام کا فطری، جمہوری و قانونی حق ہے۔
آج مقبوضہ کشمیر دنیا کا سب سے بڑا عسکری زون بن چکا ہے جہاں لاکھوں بھارتی فوجی نہتے عوام پر مسلط ہیں۔ اخلاقی، قانونی اور انسانی بنیادوں پر دنیا کو کشمیر کے مسئلے کو نظرانداز کرنا بند کرنا ہوگا۔
ہماری مائیں آج بھی بیٹوں کی لاشوں سے لپٹ کر روتی ہیں۔ ہمارے بزرگ قیدخانوں میں سسک رہے ہیں۔ اور نوجوان بین الاقوامی بے حسی کے خلاف سینہ سپر ہیں۔
دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ مسئلہ کشمیر محض ایک سرحدی تنازعہ نہیں، بلکہ یہ ایک انسانی المیہ ہے، ایک قوم کی جدوجہد آزادی ہے۔
جب تک کشمیریوں کو اُن کا حق نہیں دیا جاتا، برِصغیر میں پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں۔ عالمی برادری، بالخصوص اسلامی ممالک اور اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ دوہرا معیار ترک کرتے ہوئے کشمیری عوام کے ساتھ انصاف کریں۔
کشمیر کل بھی زندہ تھا، آج بھی زندہ ہے، اور کل بھی آزاد ہو کر رہے گا!