فکرونظر! ضمیر احمد ناز
اس وقت ہندوتوا کی فسطائی سوچ نے بھارت کوحقیقی معنوں میں نفرت کی فیکٹری میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ سوچ صرف ایک مذہبی عقیدہ نہیں بلکہ ایک سیاسی ایجنڈا ہے، جس کا مقصد بھارت جیسے متنوع ملک کو ایک مخصوص مذہب، مخصوص کلچر اور مخصوص سوچ کے تابع لانا ہے۔ ونایک دامودر ساورکر کی فکر سے جنم لینے والا یہ نظریہ آج بھارتی ریاستی نظام کے رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے، اور بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس جیسی جماعتوں کی سرپرستی میں کھل کر پروان چڑھ رہا ہے۔
ہندوتوا کے زیر اثر بھارت میں اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں، عیسائیوں اور دلتوں کے خلاف نفرت، امتیاز اور جبر معمول بن چکا ہے۔ مسلمان نوجوانوں کو محض شبہ کی بنیاد پر مار دیا جاتا ہے، گائے کے نام پر ہجوم کی لانچنگ ہوتی ہے، مدارس اور مساجد کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اور مسلم تاریخ، ہیروز، زبان، اور ثقافت کو تعلیمی نصاب سے مٹانے کی منظم کوشش کی جاتی ہے۔ “لو جہاد”، “زمین جہاد” اور دیگر فرضی بیانیے گھڑ کر اکثریتی طبقے کے ذہنوں میں نفرت کا زہر بھر دیا گیا ہے۔
میڈیا، جو کسی بھی جمہوریت کا اہم ستون ہوتا ہے، اب ریاستی ایجنڈے کا پرچارک بن چکا ہے۔ نیوز چینلز دن رات اقلیتوں کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو حق بات کہنے کی کوشش کریں، انہیں غدار، پاکستان نواز یا ملک دشمن کہہ کر کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
نصاب بھی اب ایک خاص نظریہ کے مطابق ڈھالا جا رہا ہے، جس میں مغل حکمرانوں کو ظالم اور ہندو راجاؤں کو نجات دہندہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد نئی نسل کو نفرت کی بنیاد پر تربیت دینا ہے تاکہ ایک متشدد اور تعصب پر مبنی سماج تیار ہو۔
عالمی سطح پر بھارت کی اس روش پر تنقید ہو رہی ہے۔ اقوام متحدہ، ہیومن رائٹس واچ اور امریکی ادارے بارہا بھارت میں بڑھتے ہوئے مذہبی امتیاز اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ مگر بھارت ان آوازوں کو داخلی معاملات میں مداخلت قرار دے کر مسترد کر دیتا ہے۔
یہ سب کچھ محض اتفاق نہیں، بلکہ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی ہے جس کے تحت بھارت کو ہندو راشٹر بنایا جا رہا ہے۔ مگر یہ سفر صرف اقلیتوں کی تباہی تک محدود نہیں، بلکہ خود بھارتی معاشرے کے اندر بھی گہرے زخم لگا رہا ہے۔ عدم رواداری، عدم برداشت اور فکری شدت پسندی نے بھارت کی جمہوری بنیادوں کو متزلزل کر دیا ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بھارت اب صرف ایک ریاست نہیں، بلکہ نفرت، تعصب اور فسطائیت کی ایک چلتی پھرتی فیکٹری بن چکا ہے۔ اگر یہی روش جاری رہی تو یہ آگ صرف اقلیتوں تک محدود نہیں رہے گی، بلکہ بھارت خود اپنے اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا۔ دنیا کو اور خود بھارت کے سنجیدہ طبقات کو اس خطرناک رجحان کے خلاف آواز بلند کرنا ہوگی — اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔۔۔