پیپلز پارٹی آزاد کشمیر میں شامل ہونے والے ممبران
تحریر ۔۔۔ مقصود منتظر
آزاد کشمیر میں حکومت سازی کیلئے پیپلز پارٹی نے نمبرز پورے کردیئے ۔ بیرسٹر گروپ سمیت دس ارکان کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد اسمبلی میں اب پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 27 ہوگئی ہے ۔ پیپلز پارٹی کے اپنے ارکان کی تعداد 17 ہے جو نئے دس ممبران کی شمولیت کے بعد 27 ہوگئی ہے ۔
یاد رہے ایکشن کمیٹی کے احتجاج کا ایک اہم مطالبہ یہ تھا کہ مہاجرین کی سیٹیں ختم کی جائیں کیونکہ وہ آزاد کشمیر میں حکومت گرانے اور بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں ۔ اور فنڈز لیتے ہیں ۔ ان ارکان پر حکومت کو بلیک میل کرنے کا بھی الزام لگایا جاتا رہا ۔
تازہ صورتحال کے مطابق موجودہ حکومت گرانے اور نئی حکومت بنانے میں بیرسٹر گروپ نے سب سے پہلے سیاسی کعبہ تبدیل کردیا ۔ اس گروپ میں بیرسٹر سلطان کے فرزند اور کزن بھی شامل ہیں ۔ ان ممبران میں چوہدری یاسر سلطان، سردار حسین، چوہدری اخلاق، چوہدری ارشد حسین اور چوہدری محمد رشید شامل ہیں ۔ آج اس گروپ نے آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور سے ملاقات کرکے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ۔
اس کے بعد آزاد جموں و کشمیر کے وزیرتعلیم ظفر اقبال ملک نے فریال تالپور سے ملاقات کرکے سابق حکومت سے راہیں جدا کرلیں ۔ اس کے علاوہ فہیم ربانی اور اکبرابراہیم نے بھی زرداری ہاوس میں پیپلز پارٹی کا پٹہ گلے میں ڈال دیا ۔ یہ سارے آزاد کشمیر سے منتخب ہونے والے ممبران اسمبلی ہیں ۔ ان میں سے زیادہ تر تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن جیت گئے تھے اورموجودہ مدت میں چوتھی حکومت (چوتھا وزیر اعظم ) بنانے میں ان کا کردار کسی سے چھپا نہیں رہا ۔ لیکن اس کے باوجود اگر مہاجرین ممبران پر بکنے یا بلیک میلنگ کا ٹھپہ لگایا جائے تو یہ زیادتی ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج عبدالماجد خان اور عاصم بٹ پیپلز پارٹی کو پارے ہوگئے لیکن انہوں نے بھی ہوا کا رخ اور لکشمی دیکھ کر ہی سیاسی قبلہ تبدیل کرلیا ۔
افسوس ایکشن کمیٹی اور عام عوام نے جس حق اور اختیار کیلئے قربانی دی ، جدوجہد کی اور سڑکوں پر مار کھائی اس کو یہاں کے منتخب نمائندوں نے مکمل طور پر نظر کرکے ایک بار پھر لکشمی کی قسم کھائی ۔ اپنے مفاد کو ترجیح دی اور ہری جھنڈی کیلئے سرخ لیکر کراس کی ۔
ایکشن کمیٹی اور آزاد کشمیر کے عوام کو یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ ان کا مسئلہ ان کے سیاست دان ہیں جو ہر بار بکتے ہیں ، کرسی کیلئے عوامی حق رائے دہی کو کچل دیتے ہیں ، ایک مدت میں اگر چار وزیر اعظم بدل جاتے ہیں تو اس سے اندازہ لگانا آسان ہوتا ہے کہ کس طرح سیاست دان اپنے مفادات کی پرواہ کرتے ہیں ۔