دو ججز نے استعفی دے دیا
اسلام آباد۔
سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ۔۔ دونوں ججز نے استعفی صدر مملکت کو بجھوادیا
جسٹس منصور علی شاہ نے استعفے میں وجوہات بیان کی ہیں۔انگریزی اور اردو زبانوں میں تحریر استعفے 27 ویں آئینی ترمیم کو جمہوریت پر کاری ضرب قرار دیا ۔۔ کہا ترمیم نے عدالت عظمی کو ٹکڑے ٹکڑے کردیاہے۔ عدلیہ کو حکومت کے ماتحت بنادیاہے ۔عدلیہ کو تقسیم کرکے ملک کو دہائیوں پیچھے دھکیل دیا گیا ہے
جسٹس منظور علی نے یہ بھی لکھا میں نے ادارے کی عزت،ایمانداری اور دیانت کےساتھ خدمت کی،میرا ضمیرصاف ہے اورمیرے دل میں کوئی پچھتاوانہیں،ترمیم سےانصاف عام آدمی سےدور،کمزورطاقت کےسامنےبےبس ہوگیا،سپریم کورٹ کےسینئرترین جج کی حیثیت سےاستعفیٰ پیش کرتاہوں
جسٹس منصور نے اپنے استعفی کے آخر پر احمد فراز کے یہ اشعار بھی لکھے۔۔
میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں گی ، مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے
جسٹس اطہر من اللہ کے استعفیٰ صدرِ مملکت کو بھجوا دیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استعفی میں لکھا جس آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا تھا وہ باقی نہیں رہا،میں باضابطہ طور پر مستعفی ہوتا ہوں، گیارہ سال پہلےاسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے طور پر حلف اٹھایا، چار سال بعد اسی عدالت کے چیف جسٹس کے طور پر حلف اٹھایا۔مزید چار سال بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے طور پر حلف اٹھایا۔
انہوں نے لکھا ستائیسویں ترمیم کے منظور ہونے سے پہلے، چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھا، جس میں تشویش کا اظہار کیا۔۔ آئینی ترمیم اور حالات نے ثابت کیا کہ آئین اب اپنی روح کھو چکا ہے،میں نے پوری کوشش کی کہ خود کو قائل کروں کہ آئین زندہ ہے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے،آج وہی حلف مجھے استعفیٰ دینے پر مجبور کر رہا ہے، یہ عہدہ اور لباس میرے لیے عزت کا باعث تھے، مگر اب میں ان کو آخری بار اتار رہا ہوں،
جسٹس اطہر من اللہ نے آج الوداعی ملاقاتیں کی اور اپنے چیمبر کو خالی کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے اپنے استعفی میں لکھا جس آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا تھا وہ باقی نہیں رہا،میں باضابطہ طور پر مستعفی ہوتا ہوں،
خیال رہے کہ 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد آئینی عدالت کا قیام عمل میں لایا جائے گا اور ذرائع کے مطابق جسٹس امین الدین خان آئینی عدالت کے چیف جسٹس ہوں گے۔