گزشتہ رات اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر ہونے والے واقعہ پر سوشل میڈیا پر تہلکہ مچا ہوا ہے ۔ ہر ذی شعورپاکستانی اس پر سوال اٹھا رہا ہے ۔ ایک جج صاحب کے بیٹے کے شوق کی وجہ سے دو نوجوان لڑکیاں جان سے گئیں ۔ نوجوان ڈرائیور کے ٹکر مار پر سکوٹی پر سوار دو لڑکیوں کو موقع پر ہی اگلے جہاں پہنچا دیا ۔۔ حادثہ اپنی جگہ لیکن کم سن نوجوان کے پاس قیمتی وی ایٹ گاڑی کہاں سے آئی ۔ کس نے اسے نصف شب کو گاڑی گھر سے نکالنے کی اجازت دی اور دو لڑکیاں رات ڈیڑھ بجے اس روڑ پر کیا کررہی تھیں ۔۔ ملزم کی گرفتاری تو ہوگئی لیکن کیس آگے کہاں تک جائے گا ۔۔۔ اس پر اسلام آباد کے متحرک صحافی وحید مراد نے بھی سوالات اٹھادیئے اور پرانے کیسز کا بھی حوالہ دیا۔۔۔
وحید مراد کی پوسٹ :
وحید مراد نے فیس بک پر اینی ایک پوسٹ میں لکھا ہے
جو لوگ سولہ برس کے لڑکے کو رات ڈیڑھ بجے اڑھائی کروڑ کی وی ایٹ گاڑی چلانے کو دے سکتے ہیں اُن کے لیے مرنے والوں کے اہلخانہ کو دیت دینے میں کیا مسئلہ ہو سکتا ہے؟
حادثے ہوتے ہیں مگر اس کے بعد معاملات مشکوک کیسے ہوتے ہیں۔
رات سوا ایک سے ڈیڑھ بجے کے درمیان حادثہ ہوا۔ یہ بات ہمیں مرنے والی لڑکی کے بھائی کے بیان سے معلوم ہوئی جن کا کہنا ہے کہ ایک بج کر 10 منٹ پر اُن کی بہن روانہ ہوئی۔ پھر پونے دو بجے بہن کے موبائل نمبر پر فون کیا تو پولیس اہلکار نے بتایا کہ حادثہ ہوا ہے اور پمز ہسپتال میں ہیں۔
مجسٹریٹ کے سامنے جسمانی ریمانڈ کے لیے پیش کرتے ہوئے پولیس کی درخواست میں لکھا ہے کہ ملزم کو صبح 5 بجے گرفتار کیا گیا۔ پولیس کے مطابق ملزم نے بتایا کہ حادثے کے وقت وہ سنیپ چیٹ پر ویڈیو بنا رہا تھا۔
پولیس ملزم سے فون نہیں لے سکی۔ ملزم حادثے کے بعد کہاں تھا؟ فون کہاں گیا؟ پولیس نے حادثے کے بعد صبح پانچ بجے تک کیا کیا؟
ملزم کی گاڑی کس کی ملکیت ہے؟ 18 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی ملزم کی عمر کا تعین کیوں نہ کیا جا سکا۔ شناختی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس اگر ہے تو ابھی تک سامنے کیوں نہیں لایا گیا؟
سیف سٹی کے کیمروں سے حادثے کی ویڈیو حاصل کر کے جاری کیوں نہ کی گئی؟
یادش بخیر لاہور ہائیکورٹ (اب سپریم کورٹ) کے جسٹس ملک شہزاد گھیبہ کی بیٹی نے سنہ 2022 میں رات دو بجے اسلام آباد ہائی وے پر سیور فوڈز کے دو ویٹر اپنی پراڈو تلے کچل کر ہلاک کر دیے تھے۔
پولیس سے گاڑی واپس حاصل کرنے کے لیے سپرداری ہائیکورٹ کے رجسٹرار دفتر کے ذریعے کرا لی گئی اور خاتون ڈرائیور کو غائب کر دیا گیا۔
اُس وقت مطیع اللہ جان کے ہمراہ رجسٹرار سے تفصیل حاصل کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ تھانہ شہزاد ٹاؤن کے پولیس افسران نے فائل کو دبا رکھا تھے اور تعاون سے انکاری تھے اور بتایا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کا تو نام ہی نہ لیں کیونکہ ایسی کوئی فوٹیج موجود ہی نہیں۔
پھر جب صاحب لوگ جج سے ناراض ہوئے تو دو سال بعد بیٹی کے حادثے کی فوٹیج بھی مخصوص لوگوں کو جاری کر کے سوشل میڈیا پر پھیلا دی گئی۔
حادثے کے دو سال بعد جج کی بیٹی نے ضمانت کرا لی اور شاید دوسرے مقتول کے والد کو بھی دیت دے کر معاملہ ختم کرا دیا۔
اب اس مقدمے میں بھی یہی ہوگا۔
اصولی طور پر تو یہ کیس اسلام آباد کی کسی ضلعی عدالت میں چلنا ہی نہیں چاہیے کیونکہ وہ انتظامی طور پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے ماتحت ہیں۔
کیس اگر دوسرے صوبے کو ٹرانسفر نہ کیا گیا تو جو لوگ سولہ برس کے لڑکے کو رات ڈیڑھ بجے اڑھائی کروڑ کی V8 گاڑی چلانے کو دے سکتے ہیں اُن کے لیے مرنے والوں کے اہلخانہ کو دیت دینے میں کیا مسئلہ ہو سکتا ہے؟