
اسلام آباد۔۔
سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف از خود نوٹس پر سماعت ہوئی ہے۔ چکوال سے تعلق رکھنے والے درخواست گزار کمرہ عدالت میں درخواست دائر کرنے سے ہی مکر گئے۔ چکوال سے تعلق رکھنے والے راجہ شیر بلال،ابرار احمد، ایم آصف ذاتی حیثیت میں عدالت پیش ہوئے اور موقف اخیتا ر کیا کہ ہم نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہی نہیں کی
چیف جسٹس قاقضی فائز عیسی نے پوچھا کسی نے آپکے نام اور رہائشی پتے کیسے استعمال کیے،کیا آپ بغیر اجازت درخواست دائر کرنے والوں کیخلاف ایف آئی آر کٹوائیں گے،
درخواست گزار نے کہا اگر آپکی سرپرستی ہوگی تو ہم ایف آئی آر کٹوا دیں گے
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہم کیوں سرپرستی کریں۔ ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپکو صرف چکوال والے کلائنٹ ہی کیوں ملتے ہیں، ٹی وی پر بیٹھ کر ہمیں درس دیا جاتا ہے کہ عدالتوں کو کیسے چلنا چاہیے پہلے ہم پر بمباری کی جاتی ہے پھر عدالت میں پیش ہوکر کہتے ہیں کیس ہی نہیں چلانا، ملک کو تباہ کرنے کیلئے ہر کوئی اپنا حصہ ڈال رہا ہے، سچ بولنے سے کیوں ڈرتے ہیں،وکیل کو اپنا ایڈوکیٹ آن ریکارڈ خود کرنے کا اختیار ہوتا ہے،
ایڈوکیٹ حیدر وحید نے بتایا مجھے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ نے ہدایات دی تھیں،
اس پر چیف جسٹس نے کہا غلط خبر پر کوئی معافی تک نہیں مانگتا،کوئی غلط خبر پر یہ نہیں کہتا ہم سے غلطی ہو گئی ہے، غلطیاں تو جیسے صرف سپریم کورٹ کے جج ہی کرتے ہیں،بس فون اٹھایا اور صحافی بن گیا کہ ہمارے ذرائع ہیں کسی کے کوئی ذرائع نہیں،
ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھر پھینکی جاؤ،باہر کے ملک میں ایسا ہوتا تو ہتک عزت کے کیس میں جیبیں خالی ہو جاتیں،