تھوڑے سے پیسوں کے لیے ایوان میں 12 ہاتھ کھڑے ہو گئے
اسلام آباد — 8 دسمبر 2025 کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ایک ایسا غیر معمولی واقعہ پیش آیا کہ ایوان کا توجہ مباحثے سے ہنسنےمسکرانے کی جانب مڑ گئی۔
اجلاس کے آغاز پر ایاز صادق نے فرش پر پڑی نقد رقم (دس عدد 5000 روپے کے نوٹ) اٹھائے اور ایوان میں لہراتے ہوئے اعلان کیاکہ یہ رقم کس کی ہے؟ جس کے پیسے ہیں، ہاتھ اٹھا لے۔ حیرت انگیز طور پر، بارہ ارکان نے فوراً ہاتھ اٹھا لیے، جس پر ایوان ہنسی سے گونج اُٹھا۔
چند لمحوں کے لیے اسمبلی میں سنجیدہ قانون سازی، بجٹ، یا سیاسی بحث کی بجائے یہ ’نوٹوں کا دعویٰ‘ مزاحیہ منظر بن گیا۔ جب اس تذبذب کی سی سی ٹی وی فوٹیج اور انتظامی تحقیق ہوئی، تو معلوم ہوا کہ اس رقم کا اصل مالک اقبال آفریدی تھے، جنہوں نے اُس رقم کو ادھر ادھر کرتے ہوئے فرش پر گرنے سے پہلے گم کر دیا تھا اور رقم انہیں واپس کر دی گئی۔
یہ معمولی واقعہ اتحادِ ایوان کے لیے لمحاتی تھا، مگر اس نے ایک تلخ سوال ایوان اور عوام، دونوں کے سامنے رکھ دیا ہے: اگر 50 ہزار روپے جیسی معمولی رقم پر اس طرح ’دعویٰ بازی‘ ہو سکتی ہے، تو اربوں روپے عوامی خزانے، ترقیاتی فنڈز اور عوامی وسائل کے ساتھ کیا طرز عمل ہو گا؟
یہ لمحہ اُس عمومی تاثر کا عکس بن گیا ہے جسے اکثر عوام محسوس کرتے ہیں — کہ قانون ساز ادارے بسا اوقات محض نمائش، مراعات اور فوائد کے لیے وجود رکھتے ہیں، اور عوام کی بھلائی صرف تقریری دعووں تک محدود رہ جاتی ہے۔
یہ واقعہ — جسے اکثر صحافتی رپورٹس نے نورِ طنز و مزاح میں پیش کیا دراصل ایک عکاسی ہے: ہمارے نمائندوں کی اخلاقی اور سیاسی ذمہ داری، عوامی وسائل کے تحفظ، اور عوامی اعتماد کا بحران۔ اگر 50 ہزار کے لیے اراکین نے ہاتھ اٹھا کر دعویٰ کیا، تو بڑے پیمانے پر فنڈز اور بجٹ کا حساب کتاب عوام کو کیسے یقین دلائے گا؟
یہ لمحہ چاہے مسکراہٹوں کے ساتھ گزرا ہو ایک امتحان ہے: ہمارے منتخب نمائندے، قانون ساز ادارے، اور ہم خود، عوام اپنی امیدوں اور اعتماد کے ساتھ کتنے سنجیدہ ہیں؟