
تحریر۔۔۔۔ ثاقب علی راٹھور

لفظ پولیس سے ہم آشنا تو ہیں لیکن نہ تو ہمیں پتا ہے کہ پولیس کے اصل مطلب کیا ہے نہ پولیس کو خود پتا ہے کہ لفظ پولیس کی تعریف کیا ہے ۔
لفظ پولیس کی تعریف یہ ہے۔عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنا ،جرائم کہ خاتمہ کرنا لا اینڈ آ رڈر کی صورت حال کو قابو میں رکھنا ،ریاست کی طرف سے بنائے گے قانون پر عمل درآمد کروانا ۔ اس سب کے بدلے ریاست ایک پولیس مین کو تنخواہ دیتی ہے جو کے عوام کے ٹیکسوں سے جاتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس کو کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ان کی زندگی بہت مشکل ہے ۔جیسا ہم دیکھتے ہیں کہ وہ وردی پہن کر ٹھاٹ سے اپنی ڈیوٹی پر جاتے ہیں ۔بظاہر تو ہمیں بہت خوش لگتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ پولیس اہلکار نا مساعد حالات میں بھی اپنے فرائض انجام دے رہے ہوتے ہیں ۔گرمی ہو سردی ہو بارش ہو کوئی سرکاری چھٹی ہو پولیس اہلکار ڈیوٹی پر نظر آئے گا ۔دن ہو یا رات آپ تھانہ میں کال کریں کوئی نا کوئی پولیس اہلکار اپکی خدمت میں حاضر ہو جائے گا ۔
ماہر نفسیات کے مطابق زیادہ ڈیوٹی کرنے والے اہلکار چڑ چڑے پن کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ایک عام شہری کو انکی اندرونی حالت کا پتا نہیں ہوتا ۔وہ کبھی ہم سے اپنی تعریف کی امید نہیں رکھتے۔وہ تو اپنے بیوی بچوں کو وقت نہیں دے پاتے ۔میڈیا میں اکثر آتا ہے کہ کتنے پولیس والے ذہنی بیماریوں کا شکار ہوئے ہین لیکن کبھی کسی نے وجہ جاننے کی کوشش نہیں کی۔
پوری دنیا میں پولیس کو بیشمار سہولیات دی جاتی ہیں۔ان سہولیات میں تنخواہ اچھی دی جاتی ہے ،بیوی بچوں کیعلاج معالجہ کی سہولت دی جاتی ہے بچوں کی پڑھائی اچھے سکولوں میں دی جاتی ہے. یہ سب سہولتیں ملنے کی وجہ سے پولیس والا اچھے سے اپنے فرا ئض سر انجام دیتا ہے ۔
یہ تو تھی دنیا کی بات اب آتے ہیں آزاد کشمیر کی پولیس کی طرف یہاں باقی محکموں کی طرح پولیس کا نظام الٹا ہے ۔ ایک پولیس والا جب بھرتی ہوتا ہے تو اس کے ذہن میں ایک ہی بات ہوتی ہے کے میں نے رشوت لینی ہے ،اپنے حلقے کے ممبر اسمبلی کے ساتھ تعلقات اچھے رکھنے ہیں۔ وہ اپنے اصل فرض سے غافل ہو جاتا ہے۔
پولیس عوام کی جان و مال کی حفاظت اور انصاف فراہم کرنے میں بری طر ح ناکام ہو چکی ہےجس کی وجہ پولیس کا محکمہ خود ہے ۔
اب ذہن میں ایک سوال اٹھتا ہے کے پولیس کا محکمہ خود کیوں ہے۔ قارئین وہ اس لیے ہے کے اگر کوئی پولیس والا غلطی کرتا ہے تو اسکو اس چھوٹی سی غلطی کی سزا کے طور پر لائن حاضر کر دیا جاتا ہے جیل بھیجا جا سکتا ہے. اسکے بچوں کا رزق چھین لیا جاتا ہے ۔ کیا یہ ا فسران قیامت کے دن اللہ کی عدالت میں جواب دہ نہیں ہیں؟ پولیس کے اعلی افسران خود انصاف فراہم نہیں کر رہے ہوتے تو ایک کانسٹیبل کیا انصاف دے گا۔ پولیس والا اپنے فرائض سے کیوں غافل ہے کبھی وجہ جاننے کی کوشش کی؟
پولیس کے اعلی افسران گرمی میں اے سی کی ٹھنڈی ہوا اور سردی میں ہیٹر کی گرمی سے محظوظ ہو رہے ہوتے ہیں انکو کیا پتا انکا ایک سپاہی کس حال میں ہے .وو کسی احتجاج میں قانون کا عملدرامد کروانے جاتا ہے تو سب سے آگے ہوتا ہے کسی احتجاجی کا پتھر لگ جاتا ہے ،کیا پتا کب کس کی گولی اسکو تاحیات معزور کر دیتی ہے ،اسنے تو حلف لیا ہے جس حال میں بھی ہوا اس بیچارے نے قانون پر عمل کروانا ہے اپنے بچوں کی لیے روٹی کا بندوبست کرنا ہے ۔ جب کے افسران نے تو اپنے دفتر سے کبھی کبھار باہر آنا ہے وو بھی بیشمار حفاظتی اقدامات کے ساتھ .پھر اگر اللہ نہ کرے کسی سپاہی کو زخم آ جاتا ہے تو اس کے لیے پولیس کا اپنا ہسپتال نہیں ہے باقی سرکاری ہسپتالوں میں اس کا وہ ہی حال ہوتا ہے جو باقی ریاستی باشندوں کا ہے .
اگر موت واقعہ ہو جاے تو اسکی بیچاری بیوہ دفتروں کے دھکے کھاتی رہتی ہے پنشن کے لیے .کتنے ہی پولیس کے جوانوں نے اس ملک و قوم کے لیا قربانیاں دی مگر افسران کی طرف سے انکی قبر پر پھول چڑھانے کے بعد انکا نام بھی لینا گوارا نہیں کیا ۔عوام میں یہ تاثر عام ہے کے پولیس کے جوان رشوت لیتے ہیں میرا ان لوگوں سے ایک سوال ہے کے رشوت کون نہیں لے رہا اس ملک میں ؟ تمام محکموں کا یہ ہی حال ہے .لیکن بدنام پولیس کیوں؟
بات صرف اتنی سی ہے ہم خود مجبور کرتے ہیں کے رشوت لی جائے .اگر ہم قانون کے مطابق چلنا شروع کر دیں کسی بھی پولیس والے کو پیسے نہ دیں تو کیا پولیس والا ہماری جیب سے زبردستی نکلاے گا ؟ نہیں کبھی نہیں .ہم قانون توڑتے ہیں پھر جرمانے سے بچنے کے لیے رشوت دیتے ہیں۔
میں ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں اپ گاڑی چلا رہے ہیں آپ کے پاس گاڑی چلانے کا لائنسس نہیں ہے تو ٹریفک اہلکار کو پیسے دے کے جان چھڑانے کے بجائے چالان کروا لیں تا کہ پیسا خزانہ سرکار میں تو جائے .ایک پولیس والے کو اگر کہیں دور دراز کسی وی ای پی ڈیوٹی پر جانا ہوتا ہے تو وو اپنے خرچے پر جاتا ہے .کھانا اپنے جیب سے کھاتا ہے .اگر پولیس فورس کو بھی آرمی جیسی سہولیات ملیں تو کوئی پولیس والا اپنے فرائض سے غفلت نہیں برتے گا۔آزاد کشمیر کا زیادہ حصہ پہاڑی ہے .مگر کسی صاحب بہادر کو اتنا احساس نہیں ہوتا کے اپنے جوان سے پوچھ سکے کہ آپ کن حالت میں فرائض انجام دے رہے ہو .آپکو محکمہ سے کیا کیا چاہیے .سردی ہے گرمی ہے ؟ برف ہے ؟ جاے وقوعہ تک پہچنے کے لیے گاڑی ہے؟مگر وہ ایسا کیوں کریں ان کو تو اپنے آفس میں سیگریٹ کش لگانے ہیں۔ ان افسران کو گرمی اور سردی کہ اندازہ کیسے ہو سکتا ہے .
وہ تو گرمی میں اے سی والی گاڑی میں ہوتے ہیں اے سی والی گھر میں سوتے ہیں ۔سردی میں جب جوان بہر کسی چک پوسٹ پر ڈیوٹی دے رہا ہوتا ہے تب صاحب بہادر کے گھر ،دفتر اور گاڑی میں ہیٹر چل رہا ہوتا ہے انکو اس بات کہ کیسے اندازہ ہو کے ایک جوان 4 فٹ برف میں کسی چوکی پر کیسے کھڑا ہے . ان افسران کے جوان کیسے زندگی گزرتے ہیں اگر ہمت کر کے 12 گھنٹے ایک تھانہ یا چوکی پر گزار لیں تو سب احساس ہو جائے .انکو بھی دن میں تارے نظر آنا شروع ہو جائیں گے .شائد اسطرح ان کو سہولیات مل جائیں ۔
…………………….
رائٹر ثاقب راٹھور متحرک اور بے باک صحافی ہیں ۔ چیزوں کو منفرد انداز میں دیکھتے ہیں اور ہر کہانی میں نئی اسٹوری تخلیق کرنے والے قلم کار ہیں ۔