
اسلام آباد ۔۔۔
رپورٹ ۔۔ مقصود منتظر
سورج ڈوب رہا تھا اور سفید ریش اور بکھرے بالوں والا شخص اسلام آباد کے انقرہ پارک میں ایک بنچ پر بیٹھا موبائل سے ویڈیو کلپ کاایک سین مڑ مڑ کردیکھ رہا تھا۔
یہ نوے کی دہائی کے مقبول ڈرامہ ۔۔انگار وادی ۔۔کا سین تھا۔ جس میں مورچے میں کھڑا پاکستانی سپاہی سرحد کے اس پار بھارتی فوجی کو للکار رہا ہے۔ بنچ پر بیٹھا شخص سین دیکھ کر ڈوبتے سورج کا نظارہ کرکے سردآہ بھر کے پھر موبائل اسکرین کو ٹچ کرتا تھا ۔۔۔ دو تین منٹ تک میں یہ منظر قریب سے دیکھ رہا تھا۔ میں چل کر اس شخص کے پاس گیا تو علیک سلیک کے بعد انہوں نے مجھے انگار وادی کا ایک اور سین دکھایا ۔ پھر۔۔عہدوفا ۔۔ ڈرامے کاوہ منظر جس میں اے سی کسی بیورکریٹ کا استقبال کرتا ہے۔ انہوں نے مجھے کئی کلپس دکھائے جن میں ایک خوبصورت اور بارعب شخص جاندار ادارکاری کے جوہردکھا رہا ہے ۔ میں نے پوچھا یہ کون ہے؟
بکھرے بالوں والے شخص نے مونچوں کو تاو دیکر کہا ۔۔ یہ میں ہوں ۔ میں ہوں کریم خان ۔ پاکستانی اداکار۔ کئی ڈراموں اور فلموں میں کام کرچکا ہوں ۔ پی ٹی وی کے ڈراموں میں بھی کئی رولز کیے ہیں۔ گفتگو کرتے ہوئے کریم خان نے مجھے موبائل میں سیو اور یوٹیوب پر موجود درجن بھر کلپس دکھائے۔۔
میرے لیے یہ ماننا ذرا مشکل تھا کہ ڈراموں کے اداکار اور بنچ پر موجود شخص ایک ہی ہے۔
نوے کی دہائی سے رنگین دنیا میں کام کرنے والے کریم خان ، انگار وادی کے سپاہی اور عہد وفا کے اسسٹنٹ کمشنر اتنے مختلف کیوں ہے ؟
میرے سوال پر کریم خان نے مونچھ کو تاودیا اور کہا جی ۔مختلف اس لیے کہ فلم اور ڈرامہ انڈسٹری میں ہر انسان کو مختلف طریقے سے ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ آپ سرمایہ دار ہو یا کسی فلمی شخصیت کے گھرانے کا فرد تو آپ کو معاوضے زیادہ ملے گا مگر اگر آپ عام آدمی ہو پھر چاہیے کتنا ہی باصلاحیت کیوں نہ ہو ۔ آپ کو رول کا معاوضہ اپنی حیثیت کے مطابق ہی ملے گا۔
کریم خان نے بتایا کہ انہوں نے 84 میں تھیٹر سے کیئر کا آغاز کیا پھر 90 میں انگار وادی ڈرامے میں دو رول ادا کیے۔ اسی طرح اپنے وقت کے مشہور ڈارمہ شہباز میں اپنی صلاحیتوں کا جوہر دکھایا ۔ اور حال ہی کے مقبول ڈرامہ عہدے وفا میں بھی اسسٹنٹ کا رول نبھایا ۔انہوں نے پیارا دشمن کے نام سے ایک فلم بھی پروڈیوس کی ۔ فلم کھیل سمیت پشتو کے کئی فلموں میں اداکاری کی۔
کریم خان نے کئی ڈراموں اور فلموں کے نام بتائیں ۔میرے لیے ان کا نام یاد رکھنا مشکل تھا۔
میں نے پوچھا، ماضی میں باکمال اداکاری کرنے والے شخص کو تو خوشخال ہونا چاہیے تھا تو اس پر انہوں نے کہا اللہ کا شکر ہے میں خوش ہوں۔ چونکہ کام کا معاوضہ اتنا نہیں ملتا ہے۔
اس انڈسٹری میں چہروں اور ناموں کو ہی نوازا جاتا ہے، بعض اداکار اور اداکارائیں ایک دن میں چار چار پانچ پانچ لاکھ کماتے ہیں یعنی صرف مرکزی رول کرنے والوں کو ہی نواز جاتا ہے ۔
دراصل کریم خان پارک میں اپنی ٹیم کے ساتھ آئے تھے ۔ جو وہاں شوٹنگ کررہی تھی۔ کریم خان ڈائریکشن دے رہے تھے۔
کریم خان اور ان کی ٹیم نے ۔۔عام۔۔ کے نام سے یوٹیوب چینل بنایا ہوا ہے جس کیلئے وہ مختلف قسم کی ویڈیوز بنا رہے تھی۔
کریم خان سے جب میں نے اس انڈسٹری میں آنے والے نئے لوگوں کیلئے مشورہ مانگا تو انہوں نے کہا اب سوشل میڈیا کی وجہ سے اپنی صلاحیتیں دکھانا آسان ہوگیا لیکن فلم انڈسٹری یا ڈرامہ انڈسٹری میں قدم رکھنا پھر بھی آسان نہیں۔ انہوں نے کہا اب ماضی کے مقابلے میں پیسہ کمانا آسان ہوگیا ۔
کریم خان کی اس بات پر مجھے ملکی سیاست کا میدان ذہن میں آیا جس میں عام انسان کا آنا مشکل ہی نہیں تقریبا نا ممکن ہے۔اس لیے میں نے خان صاحب کو مزید اس حوالے سے نہیں پوچھا ۔
انتہائی سنجیدہ اور نرم طبیعت کے مالک کریم خان نے یوٹیوبرز اور ٹک ٹاک والوں کو صلح دی کہ وہ فحاشی کے بجائے ایسے کنٹنٹ بیسڈ ویڈیوز بنائیں جس سے دنیا میں پاکستان کا مؔثبت امیج اجاگرہوسکے۔ اچھے خیالات پر مبنی کریٹیو کام ہی لوگ پسند کریں گے اور آپ کو آگے آنے کا موقع ملے گا۔
بظاہر فلم اور ڈرامہ انڈسٹری رنگین دنیا ہے ۔ میرے طرح کے لوگوں کا خیال ہے یہاں پیسوں کی بارش ہوتی ہے ۔ لیکن ایسا نہیں ہے ۔ صرف وہ لوگ راتوں رات شہرت اور دولت کماتے ہیں جب کا بیک گراونڈ کسی مضبوط ہوتا ہے ۔ کسی فلمی گھرانے یا سرمایہ دار کا فرد ہی یہاں دنوں میں شہرت کے ساتھ دولت بھی کما لیتا ہے ۔
کریم خان کی طرح ہزاروں لوگ ہیں جو اس انڈسٹری کو اپنی جوانی دے چکے ہیں لیکن وہ آج بھی گمنام ہیں ۔ ہزاروں لوگ کام کرنا چاہتے ہیں لیکن کام انہیں کو ملتا ہے جن کا بڑا بیک گراونڈ ہے ۔ مطلب یہاں بھی پیک اینڈ چوز کی پالیسی ہی روا ہے ۔۔
کہانی سننے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ خان صاحب س ماضی کے مقبول ڈراموں کے کلپس اور ڈوبتے سورج کو بیک وقت کیوں دیکھ رہے تھے ۔ شاید وہ اپنے تابناک ماضی اوراس دور میں آنکھوں میں سجائے خوابوں کا سوچ رہے تھے جو پورا نہیں ہوئے ۔۔ فلم کی چکا چونک دنیا میں بھی بعض لوگ صرف باپ اور خاندان کے نام پر بادشاہ بن جاتے ہیں اور بعض صلاحیتوں سے مالا مال اور جاندار اداکاری کے باوجود بھی گمنام ہی رہتے ہیں ۔