
تحریر ۔۔ مقصود منتظر

فلم بول کا ڈائیلاگ یاد ہوگا وہی جو لڑکی چیج کربولتی ہے کہ ۔۔جب پال نہیں سکتے ہو تو پیدا کیوں کیا؟ اسی کا ہم وزن ڈائیلاگ کشمیری قیادت کیلئےعرض ہے۔ جب بول نہیں سکتے ہو تو لیڈرکاہیے کے۔ مردے ہوکیا؟ منہ میں زبان نہیں، زبان میں سکت نہیں ہے کیا؟ بولتے کیوں نہیں ہو۔ افسوس ہے کہ آپ آگ ،خون اور تباہی کا تماشا دیکھنے کا انتظار کرتے رہے۔ خاموش رہ کرآپ نے وہ غلطی کی جو تاریخ میں گھٹیا الفاظ میں لکھی جائے گی۔
دس ،گیارہ اور بارہ مئی کی بات نہیں ہے کہ آزاد کشمیر بھر میں احتجاج ہوا، جگہ جگہ مظاہرے ہوئے، تشدد ہوا اور گولیاں چلیں۔ شٹرڈاون ہڑتال اور احتاج سے بہت پہلےعوامی ایکشن کمیٹی نے مطالبات سامنے رکھے۔ دو باراحتجاجی کال کو موخربھی کیا۔ پھر میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا پر بار بار پیغامات جاری کیے۔ لیڈر حضرات بتائیں، کیا وہ ان سب چیزوں سے بے خبر تھے۔ احتجاج سے چند دن قبل جب ایکشن کمیٹی کے تمام عہدیداروں نے میرپور کے منگلا ڈیم میں پانی میں ڈوبی ہوئی قبروں کے سامنے تحریک چلانے کاحلف اٹھایا۔ کیا کسی نے آپ کو وہ ویڈیو کلپ نہیں دکھایا۔

یقینا آپ سب کچھ دیکھتے رہے،سنتے رہے اور جان بوجھ کر خاموشی رہے۔ اس کی وجہ بے اختیاری اور چمچماتی کرسی ۔اس کرسی میں اتنی کشش ہے کہ اس وقت آزاد کشمیر میں عجیب و غریب حکومتی سٹ اپ قائم ہے اور کسی کو اعتراض نہیں۔ حیران کن بات ہے کہ بیک وقت ایک پارٹی حکومت میں بھی ہے اور اپوزیشن میں بھی۔ بس یوں سمجھےکہ کرسی کے ارد گرد ایک ٹولہ ہے جس کا مقصد صرف اور صرف وزارت ، وزارت بھی وہ جس میں وزیر صاحب جواب دہ نہ ہوں ۔کوئی کام شام اور کارکردگی کا پوچھنے والا نہ ہو۔ بس چسکا ہے جھنڈی والی گاڑی اور ہوٹروالے قافلے کا۔
چشمہ والی سرکار کے وزیراعظم جناب چوہدری صاحب نے یوں تو ہر وقت آستینیں چڑھا رکھی ہوتی ہیں ۔ان کی قمیض کے بٹن بھی کھلے ہوتے ہیں اور ہروقت سادگی و کفایت شعاری کے ولولہ انگیز نغمے گارہے ہوتے ہیں۔ جناب یہ تو ٹھیک ہےمگر جس عہدے پر آپ براجمان ہیں وہ ایگزیکٹیو پوسٹ ہے۔ ریاست کے معاملات کو چلانے ہی نہیں، انہیں کنٹرول میں رکھنا بھی ہے اس پوسٹ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ لیکن آپ سےیہ نہ ہوسکا۔ آپ بھی ویٹ اینڈ سی پالیسی اپناتے رہے۔ تباہی و بربادی کا انتظار کرتے رہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سب کو سامنے بٹھا کر اپنی بات منوالیتے۔ ارے دور کے نہیں اپنے قریبی لوگوں کی ہی بات سنتے، وہی جنہوں نے دس مئی کو ہی یہ اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ اس تحریک کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہوسکتا ہے،یہاں را فنڈنگ کرتی ہے۔ کیا انہوں نے آپ کوان خدشات سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ ہاں اگر بتایا تھا تو پھر آپ نے بے زبان والی خاموشی اختیارکیوں کی۔ خود کچھ کرنہیں سکتے تھے تو کم سے کم صدر مملکت یا وزیراعظم پاکستان کے سامنے ہی اپنے بے بسی ظاہر کرتے تو12 مئی والی تباہی نہ ہوتی۔ را اور بھارت کا سن کر تو آپ کو پہلے ہی چوکنا ہوجانا چاہیے تھا۔ لگتا ہے آپ نے بھی باقیوں کی طرح اپنے قریبی ساتھی کے تبصروں اور تجزیوں کو شوشہ ہی سمجھا۔یا یہ کہ خود ہی شوشے چھڑوائے۔

معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی بڑی ذمہ دار حکومت کے بعد اپوزیشن کی بنتی تھی ، لیکن یا اپوزیشن نہیں بلکہ حکومت کام اپوزیشن ہے ،یعنی اپوزیشن والے بیک وقت حکومت میں بھی ہیں اور اپوزیشن میں بھی ۔ مسلم لیگ ن کو اپوزیشن کہیں یا حکمران جماعت، پہلے تو یہ بڑا کنفیوژن ہے۔ خود پارٹی کے صدر شاہ غلام قادر صاحب بھی اسی کنفیوژن کے شکار نظر آئے ۔اس کی ایک جھلک اینکر طلعت حسین کے پروگرام میں نظر آئی۔

گیارہ مئی کو پارٹی کےنائب صدر راجہ فاروق حیدر کی کہیں آنکھ کھلی اور ٹویٹر پراپنے پارٹی صدر کی تلاش شروع کرتے ہوئے ان کی تلاش گمشدگی کا اشتہار جاری تو کیا مگرراجہ صاحب خود سنگین صورتحال سے دامن جھاڑتے رہے۔ حالانکہ وہ بھی وزیر اعظم رہ چکے لیکن اس سنگین صورتحال میں ان کا اور ان کی پارٹی کا کردار صفر بٹہ صرف رہا۔ یہی حال پیپلز پارٹی کابھی ہے ۔ اگرچہ پارٹی کے بعض رہنماوں نے صدر مملکت آصف زرداری سے ملاقات کرکے صورت حال سےآگاہ تو کیا لیکن حرام ہے کہ خود مل بیٹھ کر مسئلے کا کوئی حل نکالنے کی کوئی کوشش کی ہو۔ شاید فون پر رابطے ہوئے ہوں یا اسلام آباد کے مہنگےسیکٹر ایف سیون میں کسی چائے خانے پر خفیہ میٹنگ بھی ہوئی ہوں لیکن آزادکشمیر میں ان کا منظرخالی رہا ۔۔ خالی جگہ کو کسی نے پورا نہیں کیا ۔ مسلم کانفرنس ، جماعت اسلامی ، جموں و کشمیر پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی قیادت بھی آگ کے ڈھیر سے ہاتھ گرم کرتی رہی ۔ سب تماشا دیکھتے رہے۔ بڑے تصادم کا انتظار کرتے رہے ۔ کرسی کا انتظار کرتے رہے کہ اس پر براجمان آدمی کسی طرح ہٹ جائے اور وہ اسے سنبھالے ۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح بعض گوشت خور جانور شیر کا پیڑ بھر جانے اور شکار کو چھوڑنے کا انتظارکرتے ہیں ۔۔ سب تماش بین بنے رہے۔ کسی کو خوف خدا کا خیال آیا نہ حساس علاقے کی اہمیت کا ۔ گمان یہ ہے سب نے اپنے اپنے حلقوں کے ووٹرز کو خوش رکھنے کیلئے یہ خاموشی اختیا کی ۔ لوگوں اور حکومت دونوں کو ناراض نہ کرنے کی وجہ سے یہ لوگ آدھا تیترآدھا بھٹیر کاڈرامہ رچاتے رہے۔
دس گیارہ بارہ مئی کو جو ہوا سو ہوا ۔ چار انسانوں کے ضیاع پر افسوس ہے مگر عوام کو ریلیف مل گیا تو یہ بڑی بات ہے۔ لیکن کہانی یہاں پر ختم نہیں ہوتی ہے ۔
پندرہ اگست کا احوال بھی دلچسپ ہے۔ جماعت اسلامی نے نیک نیتی کی بنیاد پراسلام آباد میں کشمیر کانفرنس کرائی تو وہاں ہوٹل کا ہال لیڈرز سے کچھا کچھ برا ہوا تھا۔ اسٹیج پر قیادت، دائیں بائیں قیادت ، ہر طرف لیڈر ہی لیڈر۔ کانفرنس کا موضوع تھا درپیش مسائل اور حل کے کیلئے اقدامات۔ لیکن بھلے ہو مقررین کا جنہوں نےاپنی اپنی صفائیاں دیکر موضوع کا کچومرنکال دیا۔ تین چار تو سابق وزرائے اعظم تھے جن کی عمر بھی پیرانی ہے لیکن سب یہ باور کراتے رہے وہ سب سے بڑے پاکستانی ہیں۔ کوئی الحاق پاکستان کے نظریے کو ایمان کا جز قرار دیتا رہا تو کوئی حالیہ مظاہروں سے لاتعلقی کا اظہار کرکے تنخواہ پکی کراتا رہا۔ بالکل فلمی سین تھا ۔ ایسا سین جس میں چھوٹے غلطی کرتے ہیں تو بڑے علاقے کے چوہدری یا تھانیدار کی چوکھٹ پر ناک رگڑکر کہتے ہیں صاحب معاف کردو ،چھوٹوں سے غلطی ہوگئی،آپ بڑے ہیں معاف کردو۔
ارے اتنی فکر تھی تو نو دس مئی کو کہاں تھے۔ کیوں نہیں اپنے اپنے حلقوں میں گئے یا کیوں انوارالحق کو پہلے ہی ریلیف دینے پر راضی نہیں کیا ۔ کیا منہ میں زبان نہیں تھی۔ کیا ابلے پڑے تھے۔ کیا ٹانگوں میں رفتار نہیں تھی۔ مان لیا چوہدری انوارلحق آپ کا سیاسی حریف ہیں تو کم از کم کسی پاکستانی حکمران کو ہی فوری ریلیف دینے پرراضی کرلیتے تاکہ چار جانیں نہ جاتیں۔

کانفرنس میں صفایاں دینے کا سلسلہ دیر تک جاری رہا جس سے شرکا بھی بھور ہوتے رہے ۔ بھلا ہو نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ ، سابق وزیر اعظم عبدالقیوم نیازی ، حریت کانفرنس کے کنوینر محمود احمد ساغر اور حریت رہنما الطاف احمد بٹ کا جنہوں نے کانفرنس کا کچھ بھرم رکھا ۔ جی بی کے ایک دو رہنماوں نے بھی موضوع کے ساتھ تھوڑا انصاف کیا اور کچھ مثبت تجاویز دیں ۔
طویل کانفرنس میں لیڈران ہی لیڈران تھے ۔قیادت کی بہتات تھی مگر قیادت ایک پیج تو کیا ایک کتاب پر بھی نظر نہیں آئی ۔ یہ المیہ ہے کشمیریوں کا ۔ سب اپنے اپنے نظریوں کی کتاب پڑھ کر کہتے رہے ہمیں ایک پیج پرآنا چاہیے۔واہ کیا خوبصورت مذاق ہے۔ ایک پیج پر آنا ہے تو سب سے پہلے آپ کو اپنی اپنی کتابیں اپنے اپنے گھر چھوڑدینا چاہیے۔۔
بکھری ہوئی کشمیری قیادت جب تک بھانت بھانت کی بولی بولتی رہے گی مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ مسئلہ کشمیر پر بھی کوئی پیشت رفت نہیں ہوگی ۔ مجھے بہت ڈر لگتا ہے کہ کل کو کہیں بھارت نے مسئلہ حل کرنے کی آفر کردی تو اس وقت کیا ہوگا جب وہ کشمیریوں سے پوچھے گا، کہ بتائیں کیا چاہتے ہو۔۔ بکھری ہوئی قیادت بکھرے بکھرے جواب سن کر بھارت بھی کہے گا ، کشمیری اسی طرح ٹھیک ہیں ۔۔ رہنے دو ۔ مسئلہ یونہی چلنے دو ۔۔۔