چند سال پہلے میرے ایک سنئیر ہوا کرتے تھے وہ جب کبھی بھی اسلام آباد سے دفتر وزٹ کے لیے آئیں ہزار کام کھول دیا کرتے تھے اور بنی بنائی چیز جو ہر طرح سے بہترین ہو اس میں بھی چند خامیاں نکال کر مزید خرچہ کھول دیا کرتے تھے۔ اس بہانے وہ اپنا بھی سفری خرچہ نکالتے اور بلاوجہ بجٹ میں اضافہ بھی کرواتے رہتے ۔
اولین دنوں میں بڑا جزبز ہوتا ایک بار ہم نے اپنے خدشات رکھ دیے ،کہنے لگے تمھارا کیا جاتا ہے خرچہ کمپنی کا ہوتا ہے، تم نے کونسے اپنی جیب سے لگانے ہیں۔
کچھ عرصہ بعد تجربہ سے پتا چلا کہ اگر یہ ایسا نہ کریں تو ان کی عیاشیات اور ورکرز کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے ،مسسب الاسباب نے سب کے لیے سبب بنایا ہی ہے۔ خرچہ سارا کمپنی کا ہے، چلنے دو نا اپنا کیا جاتا ہے، نوکری تو کرنی ہی ہے چلو روز کوئی نہ کوئی کام نکل آنے سے تنخواہ کا بھی جواز بن جاتا ہے۔
یہ بات مجھے یاد آئی استحکام پاکستان اور پاک فوج زندہ باد ریلیوں کی خبر سن کر حالیہ عوامی لانگ مارچ کے بعد نیا سلسلہ تجدید عہد کے لیے ریلیاں جلسے جلوس کا پڑھ کر مجھے لگا کہ ان بیچاروں نے بھی نوکری کرنی ہے انہوں نے بھی تو کمپنی کا خرچہ کروانا ہی ہے بلکہ ان کو لانگ مارچ کے شرکاء کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ چلو کسی کو تو دیہاڑی لگانے کا موقع ملا ۔
ان کا کیا جاتا ہے تھوڑا سا کام اور زیادہ فائدہ ہی ہوتا ہے سنا ہے پچھلے دنوں ایسے ایک دو کو جھانپڑ بھی لگے۔ کہ تمھارے ہوتے ہوئے اتنی عوام کیسے سڑکوں پہ نکل آئی ،تم کسی کام کے نہیں اتنا خرچہ کروا کے بھی بدنامی ہوئی تمھارے ہونے کا کیا فایدہ” خیر باس سے تو سننی ہی پڑتیں ہیں۔
اب اس کے بعد ان سب کو سختی سے حکم ہے کہ اس گناہ کا کفارہ یہی کہ اب دوبارہ اپنے نظریہ کی تجدید کرو اور ماحول بناؤ ، ریلیاں ،جلسے جلوس نکالو ،خرچہ کی فکر نہ کرنا ۔
اب ان بے چاروں نے نوکری تو کرنی ہے انکار تو یہ کرنہیں سکتے، دوبارہ اس موقع سے فایدہ اٹھانے کے لیے یہ اب کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اس لیے اب صرف عوام کو ہی اپنے عزم و ہمت کا اعادہ کرکے ان کا سوشل بائیکاٹ کرنا چاہیے تا کہ یہ ایک بار پھر قوم کو بے وقوف نہ بناسکیں ۔
ایک بات یاد رکھیں ہمیں ہمیشہ الحاقی اور خودمختاری کے نام پر آپس میں لڑا کر انہوں نے اپنا مال بٹورا ہے۔ اس لیے اب ان سے لڑنا جھگڑنا نہیں بلکہ ان کو سمجھائیں کہ اپنے اداروں کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلائیں باعزت قوم جن کے ٹیکس سے ادارے چلتے ہیں ان کے حقوق کے ساتھ کھلواڑ بند کیا جائے۔ اپنی پاکستانی قوم کو یہ پیغام بھی دیں کہ ریاست جموں و کشمیر کی عوام کبھی مملکت پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہے بلکہ ریاست کی عوام بھارت کو اپنا دشمن اور پاکستان کو اپنا بھائی اور دوست سمجھتے ہیں پاکستانی عوام کو یہ چیز سمجھنی چاہیے کہ ریاست جموں و کشمیر کی سالمیت خود مختاری اور ترقی میں وہی لوگ رکاوٹ ہیں جن ذاتی مفاد کا سوچتے ہیں ۔
جموں کشمیر کے باشندے چاہے وہ خود مختار نظریہ رکھنے والے ہوں یا الحاق پاکستان کا نظریہ رکھنے والے ہوں وہ کبھی پاکستان مخالف سرگرمیوں میں استعمال نہیں ہوئے نہ ہم اس پر یقین رکھتے ہیں لیکن جہاں ریاست کے حقوق کی بات ہوگی ریاست کی سالمیت کی بات ہوگی وہاں احتجاج کیا جائے گا۔ صدا بلند کی جائے گی۔
اب ان سیاسی رہنماؤں کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ریاست کی عوام اپنا حق لینا جانتے ہیں وہ مذاکرات کی میز پر ہو یا لڑائی کے میدان میں ہو ریاست کی عوام ہر ظلم کے خلاف ہر دور میں ہر حال میں سینہ سپر رہے ہیں ریاست جموں و کشمیر میں صدیوں سے لاٹھی گولی کا ازادانہ استعمال اپنے اور پرائے سب کی جانب سے ہوتا رہا ہے لیکن ریاست جموں و کشمیر کی غیور عوام لاٹھی گولی کے سامنے ہمیشہ سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے ہیں ہم ہمیشہ مصالحتی راستہ اختیار کرتے ہیں ہم ہمیشہ نرم رویہ اپناتے ہوئے اپنا حق طلب کرتے ہیں لیکن جب ہمارے اس رویے کو ہماری خاموشی کو ہماری کمزوری سمجھ کر دبانے کی کوشش کی جائے گی تو ایسا ہم کسی صورت نہیں ہونے دیں ۔ریاست کے وسائل پر قابض اشرافیہ چاہتی یہی ہے کہ ہم آپس میں گتھم گتھا ہو جائیں۔
آزاد کشمیر کے لوگ نہ پاکستان اور پاک فوج کے ساتھ محبت کرتے ہیں ۔ اور ہندوستان سے بھرپور نفرت کرتے ہیں ۔ اس کی مثال ستائیس فروری دو ہزار انیس کا وہ دن ہے جب بھارتی پائلیٹ ابھی نندن کو ایک کشمیری بزرگ نے تن تنہا پکڑ لیا پھر اور لوگ آئے اور جان کی پرواہ کے بغیر دشمن پائلیٹ کی وہ درگت بنائی جسے پوری دنیا نے دیکھا۔
یہ مفاداتی ٹولہ عوام اور اداروں کے درمیاں خلیج پیداکرکے اپنا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں ۔
اس لیے تمام ریاستی باشندوں سے یہی گزارش ہے کہ ایسے سہولت کاروں اور دیہاڑی داروں کو اپنائیت اور حکمت سے سمجھائیں نہیں سمجھتے تو ان کا سوشل بائیکاٹ کریں ،رہنا تو انہوں نے اسی ریاست میں ہے اس لیے کوئی باشعور فرد جذباتی نہ ہو غصہ اور بدتہذیبی نہیں کرنی ہے ۔امن محبت سے متحد رہیں۔
بس یاد رکھیں ریاست جموں کشمیر کے پہاڑیو! یہ الحاق یا خودمختاری کی جنگ نہیں بلکہ بنیادی حقوق کا مسلہ ہے ۔اپنے حقوق کے لیے تم نے حمیت و غیرت کا مظاہرہ کر کے نئی تاریخ رقم کردی ہے۔اب تجدید کریں اس عہد کی کہ ریاست کے وسائل کے ساتھ کسی کو کھلواڑ نہیں کرنے دیا جائے گا۔