ڈاکٹر سید غلام نبی فائی مقبوضہ جموں وکشمیر کے مردم خیزعلاقہ وسطی ضلع بڈگام کے وارڈن علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ابتدائی تعلیم اپنے ہی علاقے سے پائی اور پھر سرینگر کے سر پرتاپ سنگھ ایس پی کالج سے گریجویشن کی۔ بعدازاں علم کی پیاس بجھانے کیلئے علی گڑھ یونیورسٹی سے ماسٹرز مکمل کیا اورپھر سکالر شپ پر مکہ مکرمہ سعودی عرب چلے گئے۔
ریاست ہائے متحدہ امریکا منتقل ہونے کے بعد 1977 میں سعودی عرب میں ماس کیمونی کیشن میں پی ایچ ڈی ٹمپل یونیورسٹی پنسلوانیا سے مکمل کیا۔ اسی کی دہائی میں انہیں سید علی گیلانی کا دست راست ہونے کے الزام میں بھارت نے نہ صرف نوکری سے برخاست کیا بلکہ کشمیر سے جلاوطن بھی کیا۔ یوں انہیں اپنے والدین اور عزیز وا قارب کیساتھ ساتھ اپنی سرزمین کو بھی خیر باد کہنا پڑا۔
وہ ہفتہ روزہ اخباراذان کے جنرل مینیجر بھی رہ چکے ہیں۔وہ بچپن سے ہی آزادی و حریت کے پیکر تھے۔بلکہ اگریہ کہا جائے کہ آزادی حریت ان کی نوشت میں شامل تھی تو بیجا نہ ہوگا۔
امریکہ منتقل ہونے کے بعد وہ خاموشی سے نہیں بیٹھے بلکہ واشنگٹن ڈی سی میں کشمیر امریکن کونسل کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی اور اس کے پہلے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ پوری دنیا باالخصوص امریکہ میں مقیم اپنے ہم وطنوں کو اسی تنظیم کے جھنڈے تلے متحد کیا اور پھر دن رات مسئلہ کشمیر پر سفارتکاری کا فریضہ انجام دیا۔کسی رکاوٹ کو اپنے راستے میں حائل نہیں ہونے دیا۔کیا دن اور کیا راتیں،اپنا سکھ اور چین بھی قربان کیا۔
پوری دنیا کے سفارتخانوں کیساتھ رابطہ قائم کرکے انہیں مسئلہ کشمیر کی تاریخی نوعیت،اس کا پس منظر اور سب سے بڑھ کر بھارت کی جانب سے اقوام متحدہ میں دنیا کو گواہ ٹھرا کر اہل کشمیر کیساتھ حق خودارادیت کا وعدہ یاد دلاتے ہیں۔
سابق امریکی صدر بل کلنٹن کو لکھے گئے ان کے خط نے واشنگٹن سے لیکر دہلی کے ایوانوں میں اسقدر زلزلہ پیدا کیا کہ بھارت نے ان کی حوالگی تک کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ لیکن سرزمین کشمیر کے سید زادے کے عزم و حوصلوں میں نہ کوئی کمی آئی اور نہ مزید کام سے مضمحل ہوئے۔
یہ مسئلہ کشمیر پر ان کی انتھک کاوشوں اور جدوجہد کا ہی نتیجہ ہے کہ سابق امریکی صدر بارک اوباما کے دور میں انہیں امریکہ میں قید وبند کی صعوبتوں سے بھی گزرنا پڑا۔مگر ان کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی۔بلکہ امریکی جج نے ڈاکٹر فائی کے کشمیرکاز اور ان کے کردار کو بھی اپنے فیصلے میں سراہتے ہوئے کہا کہ آپ ایک بہترین کاز کیلئے اپنی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔یہ کسی اعزاز سے کم نہیں تھا۔بلکہ دنیا بھر کے آزادی پسندوں کیلئے ایک مشعل راہ ہے،جس پر اہل کشمیر کو اپنے قابل فخر فرزند پر فخر ہے۔
وقت گزرنے کیساتھ ساتھ کام کی نوعیت بھی بدل گئی۔مگر اہل کشمیر کے فرزند نے اپنی آزادی کی خو نہیں بدلی۔جس کی بناء پر وہ پوری دنیا میں جانے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر فائی جن عالمی سربراہاں حکومت اور شخصیات سے ملاقاتیں کرچکے ہیں،ان میں سابق امریکی صدور جارج ایچ بش، بل کلنٹن، جارج ڈبلیو بش، ڈاکٹر ہنری کسنجر، روسی وزیر خارجہ آندرے کوزیریو اور امریکی وزیر خارجہ ڈاکٹر میڈلین البرائٹ شامل ہیں ۔جبکہ اسلامی دنیا کے بیشتر رہنماوں کیساتھ انہیں ملنے اور انہیں مسئلہ کشمیر پر جاندار موقف اپنانے پر زور دینے کا موقع مل چکا ہے۔
وہ طویل عرصے کے بعد حال ہی میں مملکت خداد اد پاکستان کے دورے پر آئے اورپہلے دن سے ہی و ہ مسئلہ کشمیر پر ہونے والی تقریبات،کانفرنسسز،میٹ دی پریس اور آزاد کشمیر میں مختلف جامعات میں طلبا اور فیکلٹی ممبران کیساتھ تبادلہ خیالات میں مصروف عمل ہیں۔وہ تھکنے کا نام نہیں لیتے بلکہ گھنٹوں مسئلہ کشمیر پر پر مغز اور مدلل خطابات سے سامعین اور ناظرین کو محضوظ کرتے ہیں۔وہ جہاں بھی جاتے ہیں اپنے علمی اور ادبی خیالات کی چھاپ چھوڑ کر جاتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ ہر ایک ان کیساتھ ملنے کی خواہش رکھتے ہیں۔وہ کھل کر اپنے خیالات و احساسات کا اظہار کرنے سے نہیں ہچکچاتے ہیں۔وہ خوبیاں اور خامیاں بیاں کرنے سے نہیں کتراتے ہیں۔جو کسی علمی شخصیت کی پہنچان ہوتی ہے۔
ڈاکٹر غلام نبی فائی آج کل واشنگٹن میں قائم "ورلڈ کشمیر اویئرنس فورم” کے سیکرٹری جنرل اور ورلڈ فورم فار پیس اینڈ جسٹس کے چیئرمین ہیں۔جبکہ وہ لندن میں قائم ‘جسٹس فاونڈیشن’ کے بانی چیئرمین اور لیسٹر UK میں قائم ‘انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کشمیر اسٹڈیز’ کے بانی چیئرمین بھی ہیں۔جبکہ برمنگھم برطانیہ میں قائم ‘کشمیر پریس انٹرنیشنل’ کے بانی ایڈیٹر انچیف بھی ہیں۔وہ استنبول میں قائم ” این جی اوزدی یونین آف دی اسلامک ورلڈ” کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے بانی رکن ہیں۔
ڈاکٹر فائی 1985-1988 کے درمیان مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن آف یونائیٹڈ اسٹیٹس اینڈ کینیڈاکے قومی صدر منتخب ہوئے۔وہ 1985-1988 کے درمیان اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا کی مجلس شوری کے رکن بھی رہے۔طالب علم رہنما کے طور پر انہوں نے کئی بین الاقوامی کانفرنسوں میں طلبا تنظیموں کی بین الاقوامی فیڈریشن کی نمائندگی بھی کی۔ 1986 میں انہوں نے ترقی پذیر ممالک کے درمیان تکنیکی تعاون پر نیویارک میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام کانفرنس سے خطاب بھی کیا۔
ڈاکٹر فائی کو ستمبر 1992 میں تنازعات کے حل میں اقوام متحدہ کی کانفرنس میں شرکت کیلئے نیویارک مدعو کیا گیا تھا۔ انھیں جون 1993 میں انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کی دوسری عالمی کانفرنس میں آسٹریا کے شہر ویانا میں بھی مدعو کیا گیا تھا۔ ویانا کانفرنس کے دوران انھیں غیر سرکاری تنظیم( UPN) کا چیئرمین بھی منتخب کیا گیا تھا۔ جولائی 1993 میں واشنگٹن ڈی سی میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام تیسرے عالمی ڈھانچے کے کانووکیشن میں شرکت کی۔ انہیں 2001 میں ورلڈ افیئرز کونسل، سیڈر ریپڈز، مشی گن اور 2003 میں ورلڈ افیئر کونسل رچمنڈ ورجینیا نے مہمان مقرر کے طور پر مدعو کیا تھا۔ انہیں کئی بار جنیوا میں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق (UNCHR) کے اجلاسوں سے خطاب اور شرکت کرنے کا موقع ملا ہے۔
مارچ1992 میں نیویارک میں ‘علاقائی تنازعات: عالمی امن اور ترقی کیلئے خطرات’ کے موضوع پر اقوام متحدہ کی سالانہ کانفرنس سے خطاب کیا۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے فارن سروس انسٹی ٹیوٹ میں 6 جون 1998 میں محکمہ خارجہ میں "کشمیر ٹوڈے” کے موضوع پر خطاب کرچکے ہیں۔ 1994 میں واشنگٹن ڈی سی میں "انسانی حقوق کی عالمی گورننس اور اقوام متحدہ کی مضبوطی” کے موضوع پر تیسرے عالمی سٹرکچر کانووکیشن میں بھی شرکت کی۔
انہیں جنوری 1981 میں مکہ مکرمہ سعودی عرب میں اسلامی تعاون تنظیم OICکے سربراہان مملکت کے تیسرے، چھٹے، ساتویں، آٹھویں، نویں اور دسویں سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ ڈکار، سینیگال میں دسمبر 1992؛ دسمبر 1994 میں کاسا بلانکا، مراکش میں؛ دسمبر 1997 میں تہران، ایران میں؛ نومبر 2000 میں دوحہ، قطر میں؛ اور اکتوبر 2003 میں پتراجایا، ملائیشیا میں؛ مارچ 2008 میں بالترتیب ڈاکار، سینیگال میں سربراہی اجلاسوں میں "جموں و کشمیر کے لوگوں کے حقیقی نمائندوں” کے رکن کے طور پر شرکت کی۔ ستمبر 2023 میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں OIC رابطہ گروپ برائے کشمیر میں کشمیری عوام کی نمائندگی کی۔ڈاکٹر فائی نے اگست 1993 میں شکاگو میں عالمی مذاہب کی پارلیمنٹ کی صد سالہ کانفرنس کے ابتدائی اجلاس سے خطاب کیا۔
ڈاکٹر فائی نے کیپیٹل ہل، واشنگٹن ڈی سی میں آٹھ بین الاقوامی کشمیر امن کانفرنسوں کا انعقاد کیا۔ جبکہ نیویارک شہر میں دو بین الاقوامی کشمیر امن کانفرنس منعقد کیں۔ جن میں پاکستان، بھارت ،کشمیر، یورپ اور امریکہ کے سرکردہ سفارت کاروں، سیاست دانوں اور ماہرین تعلیم کو مدعو کیا گیا کہ وہ تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کیلئے تمام ممکنہ آپشنز تلاش کریں۔انہوں نے جنیوا سوئیزرلینڈ میں انسانی حقوق کے مختلف موضوعات پر پانچ بین الاقوامی کانفرنسوں کا انعقاد بھی کیا۔وہ 2007 میں وسطی امریکہ میں مونٹیویڈیو، یوراگوئے میں منعقد ہونے والی پہلی بین الاقوامی کشمیر کانفرنس کے چیف آرگنائزر تھے۔ انہیں 2005 میں "ریپبلکن سینیٹریل میڈل آف فریڈم” سے نوازا گیا۔ یہ وہ اعلی ترین اعزاز ہے جو ریاستہائے متحدہ امریکہ کی سینیٹ کے ریپبلکن ممبر کو دیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر فائی کو ایک متحرک ریپبلکن اور متاثر کن رہنما کے طور پر جون 2007 میں نیشنل ریپبلکن سینیٹری کمیٹی کمیشن کے اعزازی اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ 12 اکتوبر 2007 میں انہیں "امریکن اسپرٹ میڈل” پیش کیا گیا، جو کسی فرد کو دیا جانے والا سب سے بڑا اور باوقار اعزاز ہے۔
ڈاکٹر فائی مسئلہ کشمیر پر مقالے اور مضامین لکھنے میں یدطولی رکھتے ہیں۔وہ اپنے ایک آرٹیکل میں راقم طراز ہیں: جب کہ امریکی نوجوان اپنے پسندیدہ فٹبال اسٹارز یا ہالی ووڈ کے ہیروز کو آئیڈیل بناتے ہوئے بڑے ہوتے ہیں اور جدید ترین تکنیکی اختراعات کیلئے تڑپتے ہیں، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ جب کشمیری نوجوان کالج جاتے ہیں، ان کا سب سے زیادہ مشغلہ جذبہ آزادی اور حق خود ارادیت کا جذبہ ہوتا ہے۔ ایک جذبہ جو ان کی زندگی کی روٹی اور مکھن بن چکا ہے۔ مزاحمت کا یہ کلچر اب تک گہرے طور پر سرایت کر گیا۔ ضمیر اور فرض کی پکار ہے جو کشمیر کے ہر بچے پر اس کے پیدا ہونے سے لیکر مرنے تک ہر مرد، عورت اور بچے اور ہر آنے والی نسل کے ذہنوں میں مضبوطی سے پیوست ہے۔ 65 برسوںسے زیادہ پہلے اس ملک کی الگ شناخت کے باضابطہ اعتراف کے بعد سے۔ آزادی ، آزادی اورآزادی کے الفاظ کشمیری نوجوانوں کے لبوں پر آج کل امریکی کالج کیمپس میں آئی فون اور آئی پیڈ کے الفاظ سے زیادہ ہیں۔
وہ مزید لکھتے ہیں مقبوضہ جموں و کشمیر کی حالت زار کیلئے میرا اپنا جذبہ واضح طور پر کچھ بھی منفرد نہیں ہے۔ ایک کشمیری بچے کے طور پر، خود اس ماحول میں پیدا ہوا اور پرورش پائی، میں ان لاکھوں نوجوانوں میں سے صرف ایک ہوں جو اپنی کسی غلطی یا انتخاب کے بغیر، بالواسطہ یا بلاواسطہ اس تحریک میں شامل ہو گئے ہیں اور دل کی گہرائیوں اور جذبے سے کچھ کر گزرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ ان کی ریاست کیلئے مثبت، چاہے وہ عالمی معاملات کے تناظر میں فرق کرنے کیلئے معمولی کیوں نہ ہوں۔ ملک تباہ ہو سکتا ہے لیکن قوم کو شکست نہیں دی جا سکتی۔ اس ظلم سے آزادی کیلئے ہماری جدوجہد ہمارے دل میں رچی بسی، ہمارے لبوں پر شاعری اور وہ وژن ہے جو ہمیں مضبوطی سے متحد کرتا ہے۔ اس قبضے کے سامنے ہماری بے بسی کے باوجود کشمیری عوام کیلئے انصاف اور سچائی کی جدوجہد جاری رکھنا ہمارے عزم کی بنیاد ہے۔ ہماری امید ہمارے اتحاد میں ہے، بحیثیت قوم اور ایک الہی جذبہ کے طور پر جو ہماری تاریخ کو نسل، مذہب یا عقیدے سے قطع نظر ایک منفرد ثقافتی شناخت رکھنے والے لوگوں کے طور پر پھیلی ہوئی ہے، اور ہمارا دیرپا عقیدہ ہے کہ ہمیں اپنے پیدائشی حق خود ارادیت سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔بلاشبہ ایسے تاریخی الفاظ ایک مدبر،ایک سکالر ،ایک وسیع الذہن انسان اور سب سے بڑھ کر ایک حریت و آزادی کی فکر خود رکھنے اور دوسروں تک منتقل کرنے والے شخص ہی کہہ اور سوچ سکتے ہیں اور وہ ڈاکٹر غلام نبی فائی ہیں۔جو بلاشبہ مسئلہ کشمیر کے سچے اور بے لوث سفیر ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد شہباز سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں ۔ وہ ہر چیز کو باریک بینی سے دیکھتے ہیں اور جامع انداز میں کسی بھی ایشو کا وہ زوایہ پیش کرتے ہیں جو پڑھنے والوں کو کم ہی ملتا ہے۔