
اسلام آباد۔۔۔
پاکستان کی فیشن انڈسٹری میں فیشن کے نام پر کیا ہورہا ہے۔ فیشن ڈیزائنر ماریہ بی انڈسٹری کے پول کھول دیئے۔ انہوں نے کہاکہ فیشن انڈسٹری میں 80 آدمی ہم جنس پرست ہیں جن میں بعض بائی سیکسوئل اور ایل جی بی ٹی کیو ہیں۔
ماریہ بی نےپوڈکاسٹ کو دیے گئے انٹرویو نے فیشن انڈسٹری سمیت دوسرے معاملات پر کھل کر بات کی۔
ٹرانس جینڈرز کے خلاف بات کرنے کے سوال پر ماریہ بی نے کہا کہ ان کی برداشت ختم ہوگئی تو انہوں نے مذکورہ معاملے پر بات کرنا شروع کی۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایل جی بی ٹی کیو یا ٹرانس جینڈرز افراد پر اس وقت بات کرنا شروع کی جب ایسے افراد نے سوشل میڈیا پر آکر یہ کہنا شروع کیا کہ اسلام میں سب جنسی رجحانات جائز ہیں۔
ایل جی بی ٹی کیو کی ایسے متنازع جنسی رجحانات کے مالک افراد کو کہا جاتا ہے جو کہ پیدائشی طور پر مرد یا خاتون کے طور پر پیدا ہوتے ہیں لیکن بعد ازاں ہارمونز کی تبدیلیوں یا دوسری پیچیدگیوں کی وجہ سے اپنی جنس تبدیل کرواتے ہیں۔
فیشن ڈیزائنر ماریہ بی کے مطابق شروع سے ہی فیشن انڈسٹری میں ایسے لوگ موجود تھے لیکن وہ اس لیے خاموش تھیں کہ اس وقت ایسے لوگ سوشل میڈیا پر آکر یہ دعوے نہیں کرتے تھے کہ ایل جی بی ٹی کیو اسلام میں جائز ہے۔
ماریہ بی نے دلیل دی کہ مقدس کتاب قرآن پاک میں قوم لوط کا 27 مرتبہ ذکر کیا گیا اور لوگ ایل جی بی ٹی کیو کے موضوع کو چھوٹا اور غیر اہم قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پہلے کبھی ایل جی بی ٹی کیو یا ٹرانس جینڈرز افراد کے بارے میں بات نہیں کی، کیوں کہ پہلے ایسے افراد اپنی ذات یا گھروں تک محدود تھے۔
پاکستانی فیشن ڈیزائنر ماریہ بی نے اس پوڈ کاسٹ میں یہ بھی اعتراف کیا کہ یہ انڈسٹری واقعی اچھی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماڈلنگ کے شعبے میں لڑکیاں بہت کم ہیں، والدین عموماً اپنی بیٹیوں کو فیشن انڈسٹری میں آنے کی اجازت نہیں دیتے۔