
ایمسٹرڈیم ۔۔۔۔
فلسطین کےمعروف صحافی معتزعزیزہ نے اس سال کی بہترین پریس فوٹو قرار دی جانے والی تصویر کا ایوارڈ حاصل کرلیا۔ یہ ایوارڈ معتزعزیزہ کو نہیں بلکہ ان کے ہم وطن صحافی اور فوٹوگرافر محمد سالم کو ملا ہے۔ محمد سالم پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کی وجہ سے خود یہ ایوارڈ وصول نہ کرسکے۔ ایمسٹرڈیم میں ایوارڈ لینے کی تقریب میں شرکت کے موقع پر معتز کا کہنا تھا کہ اس تصویر کو ایوارڈ تو ملا گیا لیکن اس کو انصاف بھی ملنا چاہیے ۔ آخر معتز نہ یہ الفاظ کیوں کہے ۔اس کی وجہ سادہ اور عام فہم ہے ۔
آپ کو یاد ہوگا کہ کفن میں لپٹی بھتیجی کو گلے لگا کر روتی فلسطینی خاتون کی تصویر کو سال کا بہترین پریس فوٹو قراردیا گیاتھا۔ روئٹرز کے فوٹوگرافر محمد سالم نے یہ تصویر خان یونس کے ناصر ہسپتال میں اتاری تھی۔
محمد سالم جنہوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر جنگی صورتحال میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دیئے نے یہ تصویر 17 اکتوبر کو جنوبی غزہ میں خان یونس کے ناصر ہسپتال میں لی گئی تھی جہاں اہل خانہ فلسطینی اسرائیلی بمباری سے شہید ہونے والے اپنے رشتہ داروں کو تلاش کر رہے تھے۔
سالم کی اس ایوارڈ یافتہ تصویر میں 36 سالہ خاتون اینس ابو معمر کو دیکھا جا سکتا ہے جو ہسپتال کے مردہ خانے میں کفن میں لپٹی اپنی پانچ سالہ بھتیجی کو سینے سے چمٹائے شدت غم سے نڈھال ہیں اور زاروقطار رو رہی ہیں۔
نیدر لینڈ کے دارالحکومت ایمسٹرڈیم میں منعقد ایک تقریب کے دوران رائٹرز کے گلوبل ایڈیٹر برائے پکچرز اینڈ ویڈیو رکی راجرز نے کہا کہ محمد سالم کو اپنے ڈبلیو پی پی ایوارڈ کی خبر انتہائی عاجزی کے ساتھ دی گئی کیونکہ یہ کوئی ایسی تصویر نہیں تھی جس پر جشن منایا جاتا۔
فلسطینی صحافی معتز عزیزہ بھی کئی ایوارڈ لے چکے ہیں اور حال ہی میں انہیں ٹایم میگزین کی سو متاثر کن شخصیات میں شامل کیا گیا ۔
ایوارڈ کی تقریب میں شرکت کے موقعہ پر عزیزہ نے کہا محمد سالم کو سال 2024 کے لیے دنیا کی بہترین تصویر کا ایوارڈ حاصل کرنے کے لیے کانفرنس میں شرکت کے لیے مدعو کرنے کا اعزاز مجھے حاصل ہوا۔ میں ان کی طرف سے ایوارڈ وصول کروں گا کیونکہ وہ غزہ کی پٹی نہیں چھوڑ سکتے۔ میرے خیال میں اس تصویر کو ایوارڈ کی ضرورت نہیں، اسے صرف انصاف کی ضرورت ہے۔