
تحریر،،،،، سید مہدی بخاری
آج میں ایک ایسی جگہ مدعو تھا جہاں جانے سے قبل مجھے اس کے بارے کوئی معلومات نہیں تھی۔ بظاہر وہ نام سے فارم ہاؤس ہے اور میری سوسائٹی کے اطراف ہی واقع ہے۔ میں اب یہ بھی نہیں جانتا کہ مجھے کیوں وہاں بلایا گیا۔
اپنی طرف سے ایک صاحب کو ملنے گیا تھا جن کا اصرار تھا کہ ملاقات کرنا ہے پھر وہ ملک سے باہر چلے جائیں گے۔ کافی عرصے سے وہ پیغام بھیج رہے تھے میں نے سوچا چلیں مل آتا ہوں چائے پی کر واپس آ جاؤں گا۔
مدعا یہ ہے کہ جس جگہ میں مدعو تھا وہ فارم ہاؤس کے نام پر کلب ہے۔ اندر سوئمنگ پولز بنے ہیں۔ پانچ پولز ہیں۔ انٹری فیس پر ہیڈ تو پانچ سو روپے ہے مگر اندر کا ماحول عجب ہے۔ امیر گھروں کے بچے ہیں جو پولز میں نہاتے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کے ہم جماعت ایسے لڑکے بھی ہوتے ہیں جو یہ سب افورڈ نہیں کر سکتے۔ گروپس میں یہ بٹے ہوتے ہیں۔ مطلب چھوٹے چھوٹے امیر زادوں کے گینگز بنے ہوئے ہیں۔ ان نوجوانوں کی عمریں اٹھارہ سے بائیس سال ہیں۔ اندر آرڈر پر کھُلے عام الکوحل سرو ہو رہی ہے۔ چرس، ویڈ اور آئس میسر ہے۔ اصل کمائی اسی سروس سے ہو رہی ہے۔ باہر فارم ہاؤس کا بورڈ لگا رکھا ہے۔
لڑکوں کی آپسی تو تو میں میں یا لڑائی جھگڑا روکنے کے لئے کلب میں جیسے باؤنسرز ہوتے ہیں ویسے ہی بدمعاش تعینات ہیں۔ یہ مناظر دیکھ کر میں وہاں ٹک نہیں سکا اور بنیادی معلومات لے کر نکل گیا۔ اسی سڑک پر ساتھ ساتھ دو “فارم ہاؤس” مزید چل رہے ہیں اور وہ بھی یہی “سروسز” دے رہے ہیں۔ اس ساری سڑک پر پارک شدہ گاڑیوں کو دیکھیں تو آپ کو لائن میں لمبی چوڑی بڑی گاڑیاں ایس یو ویز نظر آئیں گی۔ بعض وی آئی پی یا امیر گھرانے کے بچوں کی حفاظت واسطے ساتھ آئے مسلح گارڈز بھی باہر کھڑے نظر آتے ہیں۔ یہ بزنس کرنے یا چلانے والے بااثر لوگ ہیں۔ بااثر سے مراد کہ سیاسی وابستگیوں اور غنڈہ گردی کے بل پر بزنس چل رہا ہے اور یہ سب دشمن دار لوگ ہیں۔
مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں کہ کوئی اپنی چاردیواری کے اندر کیا کرتا ہے۔ انسان جو کرنا چاہے کرتا رہے۔ پر اگر اس چاردیواری کو پبلک کلب بنا دیا جائے اور عوام کے لیے کھول دیا جائے تو پھر معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔ آپ لائسنس لے کر کلب بنا لیں، پروفیشنل سروسز دیں تو سمجھ آتی ہے کہ بزنس ہے۔ فارم ہاؤس کے نام پر سوئمنگ پولز بنا کر گرمیوں میں ٹھنڈ پروگرام کی آڑ میں یہ نہیں ہونا چاہئیے۔
ہے کسی اینکر یا انقلابی صحافی میں جرات کہ وہ وزٹ کرے اور رپورٹ بنائے۔ یا کسی تھانیدار کسی ایس پی صاحب کی ہمت کہ وہ چھاپہ مارے۔ یہاں ٹانگیں کانپتیں ہیں۔ سسٹم باقاعدہ تحفظ دیتا ہے اور کیوں دیتا ہے یہ کہنے کی ضرورت نہیں۔
میری والدین سے اپیل ہے کہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ یہ نہانے جا رہے ہیں یا خود ڈوبنے جا رہے ہیں۔ یہ سب بزنس اور اس قماش کے فارم ہاؤسز کھمبیوں کی طرح جگہ جگہ اُگ رہے ہیں۔ ان کے کرتا دھرتا دشمن دار لوگ ہیں بدمعاش ہیں۔ کل کلاں کو یہ آپس میں پارٹیاں لڑ پڑیں یا کوئی دشمن ان پر حملہ آور ہو جائے تو بچے راہ چلتے جان سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔ یہ بچے اپنی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔والدین شاید یہ سمجھ رہے کہ گرمی میں نہانے جا رہے ہیں۔معاشرہ جس جانب جا رہا ہے ایسے ماحول میں اپنے بچے بچیوں پر کم از کم طائرانہ نظر تو رکھئے۔ اگر کوئی نقصان ہو جائے تو پھر عمر بھر کا رونا ہے۔
اور وہ صاحب جنہوں نے مجھے اس جگہ بلا لیا تھا ان سے وہاں سے تو اچھے سے رخصت ہو آیا کہ اب ان کو کیا کہتا مگر وہ پڑھ رہے ہوں گے۔ صاحب، یہ آپ کی انسلٹ ہے اور آپ نے ایسی جگہ بلا کر میری بھی کی ہے۔اسی واسطے میں اجنبی لوگوں سے نہیں ملتا اور میل ملاقاتیں ترک کر رکھی ہیں۔کوشش کریں اپنی زندگی گزارنے کا طریق درست کریں۔