

نریندر مودی کی زیر قیادت بھارتیہ جنتا پارٹی کی فرقہ پرست حکومت نے مزید پانچ کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط کر لی ہیں۔بھارتی پولیس نے عدالت کے حکم پر ضلع بارہمولہ کے تین دیہات میں بشیر احمد گنائی، معراج الدین لون ، غلام محمد یتو، عبدالرحمان بٹ اور عبدالرشید لون نامی شہریوں کی کروڑوں روپے مالیت کی 9 کنال اراضی کو ضبط کر لی ہے۔
کل جماعتی حریت کانفرنس نے اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی حکومت اختلافی آوازوں کو جبراخاموش کرانے اور کشمیری عوام کی اپنے حق خودارادیت کے حصول کی جائز جدوجہد جاری رکھنے سے روکنے کیلئے انکی املاک اور اراضی ضبط کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے ۔ حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈوکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر میں جاری ایک بیان میں نے کہاکہ مودی حکومت اپنی انتقامی مہم کے دوران اب تک بیسیوں حریت رہنمائوں ، کارکنوں اور عام کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط کرچکی ہے۔کشمیریوں سے چھینی گئی جائیدادوں پر بھارتی ہندوئوں کوآباد کیاجارہا ہے اور اس مقصد کیلئے ہزاروں بھارتی شہریوںکوجموں وکشمیر کے ڈومیسائل جاری کئے گئے ہیں ۔
بھارت کشمیریوں کو مطالبہ آزادی سے دستبردار کرانے کے لئے انھیں مسلسل ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنارہا ہے۔ کہیں بستیوں کو محاصرے میں لیکر چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرکے لوگوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا ہوتا ہے تو کہیں انسداد عسکریت کے نام پر وحیشانہ آپریشنز کے ذریعہ کشمیری نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کیا جاتا ہے۔کہیں تحقیقاتی ایجنسیوں کے ذریعہ لوگوں کی جائیدادیں ضبط کی جاتی ہیں توکہیں گھروں پر چھاپے مارکر معزز شہریوں کے لیپ ٹاپس، موبائل فونز اور اہم دستاوزات کو قبضے میں لیکر انکو گرفتار کرکے جھوٹے کیسزمیں پھنسادیا جاتاہے۔ کہیں حیلے بہانوں کے تحت مسلم سرکاری ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کیا جاتا ہے تو کہیں دس لاکھ فوج کے ہاتھو ں پہلے ہی سے محصور اور کھلی جیل کے قیدی بنائے گئے کشمیریوں کی مواصلاتی نگرانی کے لئے ان کی کلائیوں یا ٹخنوں پر GPS ٹریکر نصب کیا جاتا ہے ۔غرض کہ ریاستی جبر ، تشدد اور ہراسانی کا یہ وحشیانہ سلسلہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے طول و عرض میں چوبیسوں گھنٹے جاری رہتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ یہ سب کچھ مقبوضہ علاقہ میں امن اور تبدیلی کے ڈھول کے شور میں کیا جارہا ہے۔ مودی سرکار اپنے گودی میڈیا کے سہارے بڑے پیمانے پر یہ پروپیگنڈہ کررہی ہے کہ 5 اگست 2019 کی آئینی جارحیت کے بعد سے جموں و کشمیر مزید Disintegrate نہیں بلکہ Integrate ہوا اور وہ بھی ایسا کہ ماضی میں اسکی نظیر نہیں ملتی۔ مسلسل دعوے کئے جاتے ہیں کہ کایا یاپلٹ گئی ہے ، کشمیر اب پکے ہوئے پھیل کی طرح بھارت کی جھولی میں آگیا، حریت کے بیانئے کو شکست دی جاچکی، عسکریت کی کمر توڑی جاچکی اور کشمیری نوجوان ، بقول امیت شاہ کے ، اب کنکر نہیں پھینکتے بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا مستقبل اب بھارت ہی کے ساتھ روشن ہے۔ کشمیر کے حوالہ سے ” بدلاؤ آگیا، چمتکارہوگیا” کے اس بیانئے کو بھارتی عوام کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لئے باقاعدہ اور منظم ڈرامے کئے جاتے ہیں جن میں مودی اور امیت شاہ خود بھی اداکاری کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔
کون سیانا نہیں جانتا کہ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنا جابرانہ تسلط قائم رکھنے کے لئے کئے جارہے اپنے بدترین جرائم کو چھانے کی غرض سے پاکستان ، حریت کانفرنس، مجاہدین اور من جملہ تحریک آزادی کے خلاف جو پروپیگنڈہ مشینیں لگا رکھی ہیں ان کو ایندھن کی ضرورت پڑتی ہے اور مودی سرکار ان جھوٹے ڈراموں ہی کی صورت میں انکو یہ ایندھن فراہم کرتی ہے۔
ان سے پہلے کی حکومتوں کی طرف سے لگائی گئی ان مشینوں کو ان کے ادوار میں بھی سب اچھا ہے کے ان ڈراموں کا ایندھن فراہم کیا جاتا تھا مگر جس طرح فسطائی مودی سرکار نے کشمیریوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی میں خوفناک اضافہ کیا اور کشمیریوں کو مکمل طور پر کھلی جیل کا قیدی بنادیا اسی طرح اس نے جھوٹ کا منجن بیچنے کے لئے ان ڈراموں کو بھی بام عروج پر پہنچا دیا۔ مقبوضہ علاقہ کے حقائق جاننے کا سب سے بڑا پیمانہ تو خود بھارت کے مظالم ہیں جو ماضی کے مقابلے میں بڑھ چکے ہیں۔ مودی کے پیش روؤں نے کشمیریوں کے اوپر وہ مظالم ڈھائے کہ جن کی کم از کم برصغیر کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی اور مودی نےان مظالم کو بھی اتنا بڑھاوا دیا کہ جن کی سابقہ بھارتی حکومتوں کے ادوار میں مثال نہیں ملتی۔ ایک سیدھا اور سادہ سا کلیہ ہے کہ بھارت کشمیر میں مسلسل ناکامی سے دوچار ہے تبھی تو ان مظالم میں اضافہ ہوا ہے اور ان ہتھکنڈوں کو بھی آزمایا گیا جو ماضی میں نہ آزمائے گئے تھے؟ مسلہ کشمیر المیوں کی ماں ہے۔ اسکے ساتھ یہ المیہ بھی وابستہ ہے کہ بھارت کے عوام وہ جھوٹ خرید لیتے ہیں جو ان کی حکومتیں انھیں کشمیر کے حوالہ سے بیچتی ہیں۔ وہ خود سے مقبوخہ علاقہ کے زمینی اور تاریخی حقائق جاننے اور جانچنے کے رودار نہیں ہیں بس سرکار نے گودی میڈیا کے ذریعہ جو جھوٹی تصویر ان کو پیش کردی وہ اسے زمینی حقیقت سمجھ بیٹھتے ہیں ۔انھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کے ٹیکسز سے نہ صرف سیاست دانوں، حکمرانوں اور فوج نے اپنے مفادات کی خاطر کشمیر کو ایک دلدل بنادیا ہے جس میں خود بھارت حلق تک دھنسا ہوا ہے بلکہ انہی کے پیسہ سے انکو جھوٹ بول کر گمراہ کیا جاتا ہے۔ یہ تہرا جرم ہے جسکا ارتکاب بھارتی حکمران کشمیریوں ہی نہیں بلکہ اپنے ملک و قوم کے ساتھ بھی کرتے ہیں۔ حیر ت ہوتی ہے کہ ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی والے ملک کے لوگ ، جن کا دنیا میں آئی ٹی اور مواصلاتی ترقی میں اچھی خاصی حصہ داری ہے، میں کوئی نہیں جو یہ سمجھ سکے کہ انکو کس طرح گمراہ کیا جاتا ہے؟ جو اپنے حکمرانوں اور فوجی جرنیلوں سے یہ سوال کریں کہ اگر کشمیر واقعی اور غیر معمولی طور پر بھارت کے حق میں بدل گیا، کشمیری فتح ہوگئے تو ان کے سروں کے اوپر بدستور 10 لاکھ فورسز تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ کیوں مسلط ہے؟ اگر حریت کے بیانئے کو شکست دی جاچکی تو جملہ حریت قیادت اور کارکنان جیلوں اور گھروں میں سالہاسال سے کیوں مقید ہیں؟ کیوں نہیں ان کو رہا کرکے کھلا سیاسی میدان دیا جاتا ہے؟ حالات سدھر گئے تو خیمہ حریت تو درکنار ان لوگوں کی سیاسی مکانیت بھی کیوں محدود و مسدود کی گئی جنھوں نے تین تین نسلوں تک بھارت کے جابرانہ تسلط کو سیاسی پردہ فراہم کیا؟ اگر کشمیری بھارت کی طرف پھر گئے ہیں تو یہ زبان بندی کیوں؟ کوئی کشمیری اپنی سیاسی امنگ اور دل کی آواز کے مطابق سوشل میڈیا پر کوئی پوسٹ کرے تو اسے گرفتار کیوں کیا جاتا ہے؟ میرواعظ عمر فاروق کو گذشتہ پانچ برسوں سے جامع مسجد سرینگر میں جمعہ کے اجتماع کی پیشوائی اور نماز کی ادائیگی کی اجازت کیوں نہیں دی جارہی ؟ پھر عیدوں اور جمعتہ الوداع کے اجتماعات پر یہ پابندیاں کیوں لگتی ہیں ؟ اگر عسکریت پسندی کو شکست دی جاچکی اور بقول بھارتی فوج کے اب صرف 112 مجاہدین ہی میدان میں ہیں اور ان کے پاس حملے کرنے یا بھارتی فوج کو کوئی خاطر خواہ نقصان پہنچانے کی صلاحیت نہیں ہے تو ان کی سرکوبی کے لئے ریکارڈ تعداد 10 لاکھ فورسز کو تعینات رکھنے اور دن رات آپریشز کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر جموں و کشمیر کے عوام کی غالب اکثریت بھارت کے ساتھ ہے اور بقول بھارتی حکمرانوں کے کہ حالیہ لوک سبھا انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی 69 فیصد شرح اسکا ایک ثبوت ہے تو 112 کمزور مجاہدین کی سرکوبی کے لئے پوری کشمیری قوم کو کیوں سزاء دی جارہی ہے؟ کیوں مقبوضہ علاقہ کے طول و عرض میں چوبیسوں گھنٹے بھارتی فوج بستیوں کی بستیوں کو محاصرے میں لیکر اور چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرکے گھروں میں گھس کر نہتے لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک رہی ہوتی ہے؟ بھارتی حکمران اس بات کی کیا دلیل پیش کریں گے کہ نام نہاد "آتنک واد” کے خاتمے کے نام پر 10 لاکھ فورسز کا یہ وحشیانہ اور منصوبہ بند استعمال دراصل پوری کشمیری قوم کے خلاف نہیں ہورہا؟ اس سے بھی بڑے اور ہمالیائی سائز کے سوالات جو بھارتی حکمرانوں، سیاست دانوں، پالیسی سازوں اور فوجی جرنیلوں کو اپنے آپ سے بھی کرنا چاہئے ، وہ یہ ہیں کہ اگر 10 لاکھ بھارتی فورسز کو 35 سال کے طویل سفر کے بعد بھی 1990 کی طرح کے آپریشز انجام دینا پڑ رہے ہیں تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ وہ مکمل ناکام ہے اور دائرے کا سفر کررہی ہے جسکی منزل کہیں نہیں ہے۔ حالانکہ 1990 کے بعد سے بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ 9/11 کے بعد سے کشمیریوں کی تحریک پرامن ، سیاسی تحریک میں منتقل ہوئی جس میں عوام نے خود صف اول کے مزاحمتی کردار کو اختیار کیا مگر بھارتیوں نے اس خالص پرامن اور سیاسی تحریک کے ساتھ بھی فوج کے ذریعہ وہی وحشیانہ سلوک کیا جو 90 کی دہائی میں کیا جس میں عسکری مزاحمت کا غلبہ تھا۔اسکی وجہ سوائے اسکے کیا ہے کہ تحریک آزادی کی اصل قوت کشمیری عوام اور انکا بے مثل جذبہ آزادی ہے اور کہ بھارتیوں کے پاس ہر حالت میں فوج کے وحشیانہ استعمال کے سواکوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ بھارتی حکمران گذشتہ تین دہائیوں سے کہتے چلے آئے ہیں کہ جموں و کشمیر میں فوج کے استعمال کا مقصد ملی ٹینسی کو شکست دینے کے ساتھ ساتھ ایسے حالات پیدا کرنا ہے کہ جن کی بساط پر پھر ایک سیاسی عمارت قائم کی جائے۔ تو گویا 35 سال سے بھارتی فوج انھیں وہ بساط فراہم نہیں کرسکی۔ اسکا ثبوت حالیہ لوک سبھا انتخابات میں بھی ملا جب بی جے پی وادی کشمیر میں اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہیں کرسکی باوجود اسکے کہ اس نے 5 اگست 2019 کی آئینی جارحیت کے بعد کشمیر کے مقامی سیاسی کریکٹر کو بدلنے اور ہندو اکثریتی اسمبلی وجود میں لانے کے لئے نئی انتخابی حد بندیا ں کرنے سمیت کئی شیطانی اور سامراجی چالیں چلی تھیں۔ نہتے، کمزور، بے بس ، مجبور ، محکوم، مظلوم ، محصور اور کھلی جیل کے قیدی بنائے گئے لوگوں کے خلاف 10 لاکھ فورسز کے 35 سالہ آپریشن کی مثال کم ازکم اس خطے کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اور اس سے بھی حیران کن امر یہ کہ اسکے باوجود یہ فوج مکمل ناکام ہے اور بدستور وہی کررہی ہے جو 35 سال پہلے شروع کیا تھا۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتیوں کی پتلی حالت، مایوسی، بوکھلاہٹ، بے اعتمادی، بے یقینی اور اضطراب کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ ان کے پاس آپشنز ہی نہیں ہیں۔ وہ ناکامیوں کے ہی اسباب کو زیادہ شدت کے ساتھ استعمال کرکے کامیابیاں تلاش کررہے ہوتے ہیں۔ کشمیر کے حالات و حقائق کو ٹٹول کر دیکھیں تو بھارت ہی کی ناکامیاں سامنے آتی ہیں۔ وہ تمام تر سیاسی داؤ پیچ آزمانے، پولیٹیکل انجینئرنگ کرنے، ریکارڈ تعداد فوج لگاکر ظلم و ستم کی انتہاء کرنے، اقتصادی پیکیجز کے نام پرسیاسی رشوتیں دینے اور تہذینبی جارحیت کرنے سمیت اپنے ترکش کے تمام تیر آزمانے کے باوجود آج تلک ایک بھی کشمیری کو فتح نہیں کرپائے تبھی تو وہ ایک فوجی کوبھی واپس نہیں بلا پارہے اور کشمیریوں کو ذرہ برابر رعایت نہیں دے پارہے۔ انھیں 76 سالہ قبضے اور 35 سالہ بدترین فوجی آپریشن کے بعد بھی کشمیریوں کی کلائیوں اور ٹخنوں پر GPS ٹریکر باندھنا پڑتے ہیں۔ ان کی زمینوں اور جائیداد کو قبضے میں لینا، ملازمتوں سے برطرف کرنا پڑتے ہیں، میرواعظ کو جمعہ کی نماز کی ادائیگی سے روکنا پڑتا ہے، اظہار رائے اور اختلاف رائے کو کچلنا پڑرہا ہے، خوف و دہشت اور قبرستان کی خاموشی کا ماحول قائم کرنا پڑتا ہے اور کشمیریوں کو من حیث القوم عددی اور تہذیبی طور پرمغلوب یا ختم کرنے کے منصوبے بنانا پڑرہے ہیں۔ وہ آج بھی جموں و کشمیر پر اپنا جابرانہ تسلط جیسے تیسے قائم رکھنے کے لئے دن رات جتن کررہے ہوتے ہیں۔بھارت کا جابرانہ وجود ظلم اور جھوٹ کی دو بیساکھیوں پر کھڑا ہے یہ اسکے بغل سے نکل جائیں تو یہ ایک ہفتہ بھی قائم نہیں رہ پائے گا۔
ان تمام تر حقائق کے باوجود مودی سرکار امن اور تبدیلی کا ڈھول پیٹے اور بھارتی عوام اسکے سحر میں کھو جائیں تو یہ خود بھارت کے لئے بھی ایک قومی المیہ ہے۔ اس سے مکار حکمران سیاسی فائدہ تو اٹھاتے رہیں گے فوج بھی اپنا بل وصول کرتی رہے گی مگر بھارت کشمیر کی اس قبر سے نہیں نکلے گا جو اس نے خود اپنی ظالمانہ روش سے بنائی ہے۔ کشمیر میں حقیقی امن اور بلاؤ کے لئے بھارتی حکمرانوں کی استعماری روش اور بھارتی عوام کی بے حسی کا بدلاؤ ضروری ہے۔ جس دن بھارتی عوام مودی سرکار اور اسکی جیب میں بیٹھا مالی فوائد اٹھارہا کارپوریٹ میڈیا کے جھوٹ پر تکیہ کرنے کے بجائے کشمیر کے حقائق سے خود روشناس ہونے کا آغاز کریں گے اس دن سے بھارتی حکمرانوں کی بھارت ماتا کی سیوا کے نام پر فسطائی اور فسادی روش اور اس پورے خطے میں حقیقی تبدیلی کا سفر شروع ہوجائے گا۔