
اس گاؤں کا نام برمبوتول قریہ ہے جو افغانستان۔ پاکستان کے باڈر پر واقع پہاڑ کی ڈھلوان پر آباد ہے اور یہ بمبوریت، کالاش ویلی میں واقع ہے۔ برمبوتول اس کا پرانا نام ہے جسے اب تبدیل کرکے اس کا نیا نام شیخاندہ رکھ دیا گیا ہے۔
یہ گاؤں افغان باڈر پر واقع ہے جس کی وجہ سے لوگ اسے پاکستان کا آخری گاؤں بھی کہتے ہیں، لیکن میرے خیال میں اسے پاکستان کا آخری گاؤں کہنا درست نہ ہوگا، کیونکہ اس سے آگے بھی بہت سارے درے افغانستان کی طرف کھلتے ہیں، مثلا گرم چشمہ روڑ اور بروغل پاس وغیرہ جو یہاں سے لگھ بھگ 350 کلومیٹر (2 دن کی مسافت) پر واقع ہیں، لشکرغاز، بروغل پاس کو صحیح معنوں میں آخری گاؤں کہا جاسکتا ہے۔
اس آبادی میں نہ کالاش لوگ رہتے ہیں اور نہ کھو (چترال کا سب سے بڑا قبیلہ)، بلکہ اس میں بسنے والوں کو کاتی قبیلہ کے نام سے منسوب کیا جاتا رہا ہے ماضی بعید میں انہیں سرخ کافر بھی کہا جاتا رہا ہے۔ اور اب اسلام قبول کرنے کے بعد ان کا نیا تبدیل کرکے شیخان رکھا گیا ہے۔
تاریخ کے مطابق 1896 میں جب افغان بادشاہ امیر عبد الرحمٰن نے شمالی افغانستان میں کافرستان (موجودہ نورستان) پر یلغار کی تو اکثریت مسلمان ہو گئے، لیکن چند ایک گھرانے ہجرت کرکے کالاش کی تین وادیوں بریر، رمبور اور بمبوریت میں آکر آباد ہوگئے اور اپنے طریقے سے اپنی مذہبی روایات پر کاربند رہے۔ سکندر یونانی کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ افغانستان سے انڈین سائیڈ پر سفر کرتے ہوئے انہوں نے کچھ عرصہ ان وادیوں میں قیام کیا، بلکہ کیلاش لوگوں کے متعلق یہ بھی مشہور ہے کہ یہ یونانیوں (سکندر کے لشکر میں شامل سپاہیوں) کی اولاد ہیں۔ ان کے عبادت خانے، ان کی رسومات یونانیوں کے عیسائیت قبول کرنے سے پہلے مزہب کے ساتھ ملتی جلتی ہیں۔
تقریبا آج سے 30 ۔ 40 سال پہلے تک یہ تمام گاؤں اپنے مزہب پر کاربند تھے، اس کے بعد اسلام قبول کرنے کا سلسلہ شروع ہوا، وقت ساتھ ساتھ ان کی تعداد بھی بڑھتی گئی اور یہ مسلمان بھی ہوتے گئے، اور ان کی نئی بستیاں بھی آباد ہوتی گئیں۔ کافرستان کی تین وادیوں میں اب کافروں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے جبکہ شیخان قبیلہ تقریبا مکمل طور پر مسلمان ہو چکا ہے۔
رمبور میں بسے گاؤں کو بھی شیخاندہ قبیلہ ہی کہلاتا ہے، جن کا پرانا نام کنیشت ہوا کرتا تھا۔
بڑا دلچسپ علاقعہ ہے، دیکھنے کے قابل ہے۔ خوبصورتی، ہریالی، چشمے، پہاڑ، پھل اور خوبصورت اور محب وطن لوگ۔