
سڑکوں پر نکلا ہوں تو معلوم ہوا کہ یار یہاں تو بہت ساری کہانیاں بکھری پڑی ہیں ۔ بائک رائیڈ ر بننے سے پہلے یہ طے کر چکا تھا کہ کم از کم سیکورٹی گارڈز کو بائک کو ہاتھ دے گا تو اسے مفت سروس فراہم دوں گا کیوں ان کی تنخواہیں کم اور ڈیوٹی لمبی اور سخت ہوتی ہے ۔ بہرحال میں سڑکوں پر بکھری لاتعداد کہانیوں کی بات کررہا تھا ۔
میں سب سے کچھ نہ کچھ علمی، ادبی، سیاسی یا معاشی صورتحال پر سوال اچھال دیتا ہوں اور ان سے جواب سنتا ہوں جو عموماً بہت دلچسپ اور سادہ ہوتے ہیں اور منزل آجاتی ۔
ایک ہفتے میں سب سے زیادہ مجھے ” سوفٹویر انجنئیر ملے ” ایک دور میڈیکل کا تھا یہ دور آن لائن کاروبار کا ہے مگر پاکستان میں یہ شعبہ بھی اپنے مزدور کے لیے دل کشادہ نہیں کرپارہا اسی لیے سوفٹویر انجینئر نوجوان بائک پر سفر کررہا ہیں ۔
کل فیض آباد بند ہونے کے بعد آئی نائن انڈسٹریل ایریا سے ایک 25 سالہ نوجوان ملا ۔ اسے فیض آباد جانا تھا ۔ راستے میں اس کا انٹرویو لینے لگا ۔
بولا سر میری پڑھائی میں والدین نے شادی پچیس لاکھ سے زیادہ خرچ کردیے ہوں گے مگر جس کمپنی میں جاب ملی ہے وہ پچیس ہزار تنخواہ دیتے ہیں ۔
میں نے کہا تو بیٹا باہر کیوں نہیں ٹرائی کرتے؟
بولا آسان نہیں رہا۔
میں نے کہا کوشش کرتے رہو ۔
بولا ہاں کوشش کررہا ہوں ایک نہ ایک دن ضرور جاؤں گا ۔
میں نے ہنستے ہوئے کہا پھر واپس مت آنا ۔
گزشتہ سال تقریباً سات لاکھ جوان اور نوجوان ملک سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے ۔ اللہ باقیوں کو بھی یہاں سے نکلنے میں مدد فرمائے ۔ یہاں کے روز نئے ڈرامے ہیں ۔ ایک سوشہ روز چھوڑ دیا جاتا ہے اور عوام اس میں لگ کر اپنی تکالیف بھول جاتی ہے ۔
پانی، علاج، روزگار ، تحفظ ، بجلی، گیس نہیں مل رہا ۔ مہنگائی ایسی کہ ڈر لگنے لگا ہے کہ لوٹ مار، چھینا جھپٹی کا بازار گرم نہ ہوجائے اور جو لوگ کمزور ہیں وہ اجتماعی خود ک ش ی ا ں نا کرنے لگیں ۔
نمبر ون سے لیکر نمبر ٹین پرسن تک اپنے سیاسی مخالفین کو برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں مگر اسی مزے مزے میں وہ ملک تباہ کرچکے ہیں اور کوئی ملال بھی نہیں ۔ غوری نامہ