
حویلی کہوٹہ آزاد کشمیر، یونین کونسل چھانجل،گاؤں مندہار کے محلہ ریالی میں اور گورنمنٹ ہائی سکول مندہار کے قریب واقع تقریباً دو سو سال پرانی حویلی کے کھنڈرات موجود ہیں۔ اس عمارت کی باقیات آج بھی اس کی عظمت رفتہ کی کہانی بیان کر رہے ہیں۔
مقامی لوگوں کے مطابق یہ اس وقت کے بڑے سیٹھ صاحب کی حویلی تھی۔ جو کہ علاقہ کے رائیس ہوا کرتے تھے۔ اور انہیں بے تاج بادشاہ کہا جاتا تھا۔ لیکن زمانے نے ان کا نام اور نمود نمائش سب ختم کر دیا۔ کیونکہ یہ دنیا ہے اور سدا بادشاہی میرے اللہ ہی کی ہے۔ باقی سب فانی ہے۔
اس عمارت کی تعمیر کو اس شان سے بنایا گیا ہے کہ دیکھنے والا حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ ایک ایک پتھر کو اس خوبصورت انداز سے تراشا گیا ہے کہ جیسے خاص سانچے سے گزارا گیا ہو۔ سیمنٹ سریا کے بغیر کسی ایسے مسالہ یا سرخی سے پتھروں کو جوڑا گیا ہے کہ آج بھی پتھر ایک دوسرے سے مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں۔ اور بعض جگہوں پر نیچے والے ردے یعنی پتھروں کی لائن نکل بھی چکی ہے لیکن اوپر پتھر بغیر بیم کے ویسے ہی جڑے ہوئے ہیں۔ دروازوں پر خوبصورت نقش کاری کی گئی ہے۔ اور یہ کسی مضبوط لکڑی (برمی وغیرہ) کے بنے ہوئے ہیں کہ صدیوں بعد بھی شاندار حالت میں قائم ہیں۔للہ
یہ جگہ اب کس کے قبضہ میں ہے، یا یہ لوگ جو اب اس جگہ کے وارث ہیں انہی سیٹھ صاحب کی اولاد میں سے ہیں؟ اس حوالہ سے میں معلومات نہ لے سکا۔ لیکن شائد وہ اصل وارث جا چکے ہیں اور اس کے مالکان بھی شائد ریاست کی تقسیم کے بعد بدل چکے ہیں۔ اور یہ در و دیوار اب تک کیسے قائم ہیں اور بغیر کسی محکمانہ تحفظ کے اسے اکھاڑ کیوں نہ دیا گیا؟ ان سوالات کے جواب وہاں کے مقامی لوگ دے سکتے ہیں۔
یہ دنیا واقعی ہی کھیل اور تماشا ہے۔ یہاں کسی کو ثبات و دوام حاصل نہیں۔
عاد و ثمود جیسی مضبوط قومیں بھی ایسے مٹ گئیں کہ ان کے نام و نشانات کو اللہ نے عبرتناک بنا دیا۔ ہمارا ٹھکانہ بھی یہاں عارضی ہے۔ ہم بھی جتنے مرضی محل بنا لیں، کل ہماری نسلوں سے بھی کوئی ہمارا نام تک بھی جاننے والا نہیں ہو گا۔ فکر اس جہان کی کرنی چاہیے جہاں ہم نے مستقل سکونت اختیار کرنی ہے۔ اور وہ حیات بعد الموت ہے۔ اگر ہم یہاں ضرورت کے درجے پر رہتے ہوئے اپنے ہونے کے مقصد کے مطابق زندگی گزار دیں گے تو اصل ٹھکانہ یعنی آخرت میں کامیاب ہوں گے۔