پونچھ میں پنجاب کانسٹیبلری کے ساتھ 1954ء میں کیا ہوا؟ انتشار کون چاہ رہا؟
تحریر: خواجہ کاشف میر
وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کی حکومت نےآزادکشمیر میں امن و امان کے قیام خاص کر رواں ماہ عوامی ایکشن کمیٹیوں کی کال پر تمام شہروں میں پہیہ جام، شٹر ڈاون ہڑتال اور دارالحکومت کی طرف عوامی مارچ کے پیش نظر پنجاب کانسٹیبلری کو طلب کیا ہے، پنجاب حکومت نے 600 تربیت یافتہ مسلح اہلکاروں کو آزادکشمیر بھیجنے کی منطوری بھی دے دی ہے۔ پنجاب کانسٹیبلری کو امن و مان پر قابو پانے کیلئے 1954 ء میں بھی طلب کیا گیا گیا تھا، اس وقت پونچھ بھر میں عوام نے بغاوت کر دی تھی، بغاوت کی وجہ کیا تھی اور پھر شکست کسے ہوئی تھی، یہ جاننے کیلئے ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہیں۔
سردار ابراہیم خان کو اسٹیبلشمنٹ نے صدارت کے منصب سے جبری طور پر الگ کرتے ہوئے سید احمد علی شاہ کو 30 مئی 1950ء کو آزادکشمیر کا صدر بنایا ، جو 2 دسمبر 1951ء تک صدر رہے، سردار ابراہیم خان کو اقتدار سے الگ کیے جانے کے اس طریقہ کار پر پونچھ کی اس وقت کی قیادت خاص کر سدھن قبیلہ کے عمائدین اور جنگجووں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا،سردار ابراہیم خان کا ساتھ دیتے ہوئے پونچھ بھر کے لوگوں نے ایک متوازی حکومت قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے سید احمد علی شاہ کی حکومت کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا، پلندری، راولاکوٹ،ہجیرہ عباسپور، فارورڈ کہوٹہ، باغ، سہنسہ کوٹلی میں حکومت کی رٹ نہ ہونے کے برابر تھی۔
سید احمد علی شاہ کو صدارت سے ہٹا کرمیرواعظ یوسف شاہ کو 2 دسمبر 1951ء سے 18 مئی 1952 ء تک صدر ریاست بنایا گیا لیکن پونچھ کی بغاوت پر قابو نہیں پایا جا سکا۔مقتدرہ کسی صورت سردار ابراہیم خان کو صدارت دینے کے حق میں نہیں تھی، اس لیے میر واعظ یوسف شاہ کو ہٹا کر ایک ماہ کیلئے راجہ حیدر خان کو عبوری صدر بنایا گیا،پھر 22 جون 1952 ء کو کرنل سردار شیر احمد خان کو صدر آزادکشمیر بنایا گیاجو 30 مئی 1956ء تک اپنے عہدے پر رہے۔ ریاست کی سیاسی قیادت اس وقت دو حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی، ایک گروپ جس میں سردار ابراہیم خان، چوہدری نور حسین، راجہ حیدر خان اور انکے ساتھی شامل تھے، دوسرے گروپ میں چوہدری غلام عباس، غلام حیدر جنڈالوی،سردار قیوم خان شامل تھے۔
کرنل شیر احمد خان کو صدارت سونپی گئی تو راجہ حیدر خان مظفرآباد سے پونچھ میں باغیوں کی حمایت میں کھل کر سامنے آئے، سردار ابراہیم خان نے انہیں متوازی حکومت کا سربراہ نامزد کر دیا تھا۔ پونچھ میں بغاوت کے دوران تمام سیاسی قیادت کو گرفتار بھی کیا گیا، سردار ابراہیم خان، راجہ حیدر خان، سردار مختار خان، خواجہ امیر اللہ، خان بہادر خان سمیت تمام اہم افراد جیلوں میں تھے،شیر جنگ کرنل غلام رسول اعوان، عالم شیر اعوان نے اس قدر مہارت سے جنگ لڑی کے حملہ آور بھی حیران ہوتے،لفٹینٹ فروز دین ہتھیار بنانے کے ماہر تھے، ہر گھرانہ اس جنگ میں اپنی بساط کے مطابق شریک ہوا، راجہ حیدر خان پلندری جیل میں تھے تب ان کے گھر فاروق حیدر خان کی پیدائش ہوئی، جیل میں مٹھائیاں بھی تقسیم کی گئیں۔
کرنل شیر احمد خان کے دور صدارت میں پونچھ بھر میں بغاوت عروج پر پہنچ گئی تھی، مقامی پولیس نے اپنے لوگوں اور اپنی قیادت کے خلاف لڑنے سے صاف انکار کر رکھا تھا تو اس بغاوت کو کچلنے کیلئے پنجاب کانسٹیبلری کے سینکڑوں جوان پونچھ بھیجے گئے، پونچھ کے مسلح جتھوں اور پنجاب کانسٹیبلری کے جوانوں کے درمیان کئی لڑائیاں ہوئیں، مقامی باغی ہزاروں کی تعداد میں تھے،جانی نقصان اور زخمیوں کی تعداد بڑھ جانے کی وجہ سے پنجاب کانسٹیبلری کے جوان زیادہ دیر تک باغیوں کے ساتھ لڑائی نہیں کر سکے اور بلاآخر پونچھ سے بھاگ نکلے۔ پنجاب کانسٹیبلری کے بھاگنے کے بعد فوج کے مسلح یونٹ کو پونچھ میں بغاوت کو کچلنے کیلئے بھیجا گیا، اس یونٹ میں 12 سو کے قریب جوان موجود تھے۔ اس وقت کے عینی شاہدین کے مطابق راولاکوٹ اور پلندری میں کئی معرکے ہوئے جس میں فوج اور مقامی جنگجو آمنے سامنے آئے۔راولاکوٹ شہر،پلندری شہر اور ہولہاڑ کوٹلی میں مقامی جنگجووں اور فوج کے جوانوں کے کئی مقابلے ہوئے، اطراف سے جانی و مالی نقصان ہوا، مقامی مسلح جتھے فوج پر حملہ کرتے اور پہاڑوں اور جنگلوں میں چلے جاتے، فوجی جوان ڈائنامائیٹ لگا کر جنگجووں کے گھروں کو اڑا دیتے، 15سے 18 کے قریب فوجی جوان بھی مارے گئے اور اتنے ہی مقامی جنگجو بھی مارے گئے۔
1955ء میں حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا کہ اس بغاوت کو طاقت سے کچلنا ممکن نہیں لہذا سیز فائر کرتے ہوئے ایک کمیشن بنایا جائے جو تمام حقائق سامنے لائے،اہلیان پونچھ کی طرف سے اس وقت کے معروف قانون دان افضل ظلہ ایڈووکیٹ کمیشن کے سامنے پیش ہو تے رہے، یہی قانون دان بعد میں چیف جسٹس پاکستان بھی بنے۔کرنل شیر احمد خان کے دور صدارت کو 30 مئی 1956 ء میں ختم کرتے ہوئے میر واعظ یوسف شاہ کو ساڑھے تین ماہ کیلئے دوبارہ صدر بنایا گیا، کمیشن کی تحقیقات اور تجاویز کے بعد حکومت پاکستان نے سردار ابراہیم خان کو اختیار دیا کہ وہ صدر آزادکشمیر کیلئے کسی فرد کو نامزد کریں تو اس وقت حیران کن طور پر سردار ابراہیم خان نے اپنے قریبی ساتھیوں کو چھوڑ کر دوسرے گروپ میں سے سردار عبدالقیوم خان کو صدر کیلئے نامزد کر دیا۔
سردار عبدالقیوم خان 8 ستمبر 1956ء کو صدر بنے اور 13 اپریل 1957ء کو انہیں عہدے سے ہٹا کر سردار ابراہیم خان خود آزادکشمیر کے دوسری مرتبہ صدر بن گئے، انکی صدارات 30اپریل 1959ء تک قائم رہی، ان کے بعد لبریشن لیگ سے تعلق رکھنے والے کے ایچ خورشید کو صدر آزادکشمیر بنایا گیا جو 7 اگست 1964 ء تک اپنے عہدے پر رہے۔ خان عبدالحمید خان 7 اگست 1964 سے 7 اکتوبر 1969 تک آزادکشمیر کے صدر رہے، خان عبدالحمید خان کے دور میں سردار ابراہیم خان، کے ایچ خورشید، راجہ حیدر خان و دیگر قیادت نے ووٹ کے ذریعے صدارتی انتخاب کی مہم چلائی جس کو عبدالرحمان خان کے عبوری صدارتی دور کے دوران حکومت پاکستان نے تسلیم کر لیا۔
70ء میں عبوری ایکٹ نافذ کرنے کے بعد پہلے صدارتی انتخابات ہوئے، سردار ابراہیم خان نے مسلم کانفرنس کے امیدوار سردار عبدالقیوم خان کے مقابلے میں کے ایچ خورشید کی حمایت کرنے کا اعلان کیا لیکن بعدازاں جب پونچھ پہنچے تو اپنے ساتھیوں نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا،الیکشن ہوئے تو سردار عبدالقیوم خان الیکشن جیت کر صدر بن گئے جبکہ سردار ابراہیم خان تیسرے نمبر پر آئے۔ 1974 میں آزادکشمیر کو ایک با ضابطہ عبوری ایکٹ دیا گیا جس کے نتیجے میں پارلیمانی جمہوری نظام قائم ہوا، قانون ساز اسمبلی وجود میں آئی، اس کے بعد ووٹ کے ذیعے ممبران اسمبلی کا انتخاب ہوتا اور ممبران اسمبلی اپنے ووٹ کے ذریعے صدر اور وزیر اعظم کا انتخاب کرنے لگے۔
اب سال 2024ء ہے، مئی کا مہینہ ہے، پونچھ سمیت ریاست بھر میں گزشتہ 10 ماہ سے عوام نے اپنے حقوق کیلئے احتجاجی تحریک چلا رکھی ہے، تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ہزاروں افراد کی احتجاجی ریلیاں، شٹر ڈاون، پہیہ جام وغیرہ کامیابی سے ہوئی ہیں، کئی شہروں میں احتجاجی دھرنے جاری ہیں،رواں ماہ 11 مئی کو ریاست گیر احتجاج اور قانون ساز اسمبلی کی طرف احتجاجی مارچ کی کال دی گئی ہے جس سے انوار الحق کی حکومت خوفزدہ ہے۔پیداواری قیمت پر بجلی دینے کے مطالبے کے ساتھ عوام کی طرف سے بجلی بلات کا مسلسل بائیکاٹ چل رہا، گلگت بلتستان میں آٹے پر دی جانے والی سبسڈی یہاں بھی مانگی جارہی، اشرافیہ کی مراعات ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا، پن بجلی منصوبوں بارے عدالتوں کے فیصلوں ہر عمل کرنے کا کہا جا رہا، انوار الحق سرکار نے عوامی احتجاج کو روکنے کیلئے پاکستان سے پنجاب کانسٹیبلری طلب کر لی ہے، فرنٹیئر کانسٹیبلری کی خدمات بھی لی گئی ہیں جو چاینیز انجنیئرز کی سیکیورٹی پر معمور رہیں گے۔
ایسا لگتا ہے کہ چوہدری انوار الحق حکومت کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا جا رہا،یا ان کو آگ کے سمندر میں دھکیلا جارہا،اگر نہتی اور پر امن احتجاج کرنے والی عوام کا مقابلہ آزادکشمیر پولیس اور پنجاب کانسٹیبلری سے کرانے کی کوشش کی جائے گی تو یہ خواہش ریاست بھر میں انتشار کا باعث بن سکتی ہے،پر امن مظاہرین سے مذاکرات ک کیے جانے چاہیے، طاقت کا استعمال نقصان دہ ہو گا،اگر طاقت کا استعمال کیا گیا تو چند ہزار پولیس اہلکار اور چند سو پنجاب کانسٹیبلری کے اہلکار لاکھوں عوام کے سامنے کم پڑ جائیں گے آزادکشمیر پولیس کو پنجاب کانسٹیبلری کے جوانوں کو سیکیورٹی دیکر کوہالہ اور آزادپتن کراس کرانا پڑ سکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اہل اقتدار کو پونچھ والوں کو زیر کرنے کے علاوہ اس مرتبہ مظفرآباد، کوٹلی، میرپور، نیلم اور جہلم ویلی میں احتجاج کرتی عوام کو بھی بزور طاقت زیر کرنے کی خواہش ہے لیکن ان کو خبر دار ہونا چاہیے کہ اب کی بار نیلم تا بھمبر عوام متحد ہے، لوگ اپنے حقوق سے با خبر اور مکمل با شعور ہیں۔اقوام متحدہ سے لیکر پوری دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیموں تک خطے کے لوگوں کا براہ راست رابطہ ہے، با اثر ممالک کے سفارت کاروں تک آزادکشمیر کے لوگوں کی با آسانی رسائی ہے۔ میڈیا فعال ہے اور پل بھر میں اس طرح کی سرگرمیاں دنیا بھر تک پہنچ جاتی ہیں، یہ عالمی متنازعہ خطہ ہے اور دنیا بھر کی نظریں اس پر رہتی ہیں، عوامی حقوق اور بنیادی انسانی حقوق پر کوئی بھی ملک یا عالمی تنظیم حمایت نہیں کرے گی، تحریک آزادی کشمیر کے اس بیس کیمپ میں طاقت کا استعمال تحریک آزادی کشمیر بارے پاکستان کے بیانیے کو نقصان دے گا۔ 54ء میں جب پونچھ کی عوام کے پاس وسائل نہیں تھے ، معلومات پھیلانے کے جدید طریقے موجود نہیں تھے تب مسلح فورسز لوگوں کو فتح نہیں کر سکے تھے تو اب ہم گلوبل ویلج میں رہتے ہیں، اب ایسی انتشار کی کوشش کسی صورت کامیاب نہیں ہو گی۔