
تھریر۔۔۔۔ولید بن مشتاق مغل
كچھ عرصہ قبل وزیراعظم پاكستان نے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا۔ یوں تو 18ویں ترمیم كے بعد تعلیم صوبائی معاملہ بن چکا ہے تاہم وزیر اعظم نے کہا کہ ایمرجنسی ملک کے لیے ہے اور وہ تعاون، تعمیل اور پیروی کو یقینی بنانے کے لیے تمام صوبوں اور وزرائے اعلیٰ کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ آ ئیے جانتے ہیں كہ یہ تعلیمی ایمرجنسی ہے كیا اور اسكی ضرورت كیوں درپیش ہے؟
لغت میں ’ایمرجنسی‘ کے معنی ہیں ایک سنگین، غیر متوقع اور خطرناک صورت حال جس کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں تک ملک میں تعلیم کی موجودہ حالت کا تعلق ہے تو بلاشبہ صورت حال سنگین اور خطرناک ہے۔ لیکن یہ غیر متوقع ہر گز نہیں۔ یہ دہائیوں سے تعلیم کو دانستہ اور بامقصد انداز میں نظرانداز کرنے کا نتیجہ ہے۔ ایك محتاط اندازے كے مطابق ملک میں 5 سے 16 سال کے درمیان تقریباً دو کروڑ 60 لاکھ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ یہی نہیں جو بچے اسكول یا مدرسہ سے تعلیم حاصل كر رہے ہیں اسكا معیار بھی حد درجہ ناقص ہے ۔ تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کرتے وقت حكومتی عہدیداران نے اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا کہ حالات سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے؟ پالیسی میں کیا تبدیلیاں ہونگی؟ ریاست تعلیم پر کب اور کیسے زیادہ سرمایہ کاری کرے گی؟ یہ سب کب طے ہوگا؟اس پر عمل درآمد کیسے ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ۔ وزیر اعظم نے یہ ضرور كہا كہ وہ خود اس پورے عمل كی نگرانی كریں گے۔ لیكن وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے ترجیحات اور جن ایکشن پلانز پر عمل ہونا ہے ان تفصیلات بارے خاموشی ہی اختیار كی گئی۔
كہتے ہیں تعلیم نسلیں سنوار دیتی ہےمستقبل روشن بنا دیتی ہے اور جینے کا ہنر سكھا دیتی ہے۔ ہم اگر تاریخ كا اوراق دیكھیں تو اندلس کی عظیم سلطنت ہو یا شہر بغداد كی اہمیت، علم و ہنر ہی كی وجہ سے پہچانی گئی۔مسلمانوں نے بھی ترقی علم کی بدولت ہی حاصل کی۔ عرب کے صحراؤں میں رہنے والے اور جہالت میں ڈوبے،دنیا کے امام بن بیٹھے۔ تقسیم ہند كے بعد ایك نوزائیدہ ریاست نے جنم لیا تھا تاہم بطور قوم ہماری جڑیں تو صدیوں سے موجود تھیں جن میں علم و ہنر كا گودا بھی موجود تھا۔ لیكن نجانے كیا ہوا كہ نئی آزاد ریاست كے حصول كے 77 سالو ں میں علم و ہنر كہ دیے سے تیل چرا كر اسے بے نور كر نے كی ہی سازشیں پروان چڑھتی رہی۔ یو ں آٹھ دہائیاں ہونے كو ہیں اور آج بھی عوام كی بڑی تعداداپنے بچوں کو تعلیم دلانے سے قاصر ہیں۔ کچھ لوگ تو شعور کی کمی کی وجہ سے تعلیم نہیں دلاتے اور بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو تعلیمی اخراجات برداشت نہ کرنے کی وجہ سے اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلا سکتے۔ پاکستان میں بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں اسکول موجود ہی نہیں۔ کہیں کہیں سرکاری اسکول تو ہیں لیکن ان کی تعداد نہایت کم ہے، جو ضرورت کو پورا نہیں کرسکتے۔ ایسے بچے جو غریب ہیں اور غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ چھوٹی سی عمر میں ہی گھروں کے اخراجات پورے کرنے کےلیے محنت اور مزدوری شروع کردیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بچے تو سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں، کچھ بچے ٹریفک سگنلز پرکھڑے گاڑیوں پر وائپر لگا رہے ہوتے ہیں اور کچھ دیگر اشیاء فروخت کرکے اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ یہ غریب بچے بنیادی ضروریات حاصل کرنے میں بھی ناکام ہوتے ہیں اور تعلیم جو ان کا بنیادی حق ہے، اس سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔
آ ئین پاكستان كی رو سے تعلیم كی فراہمی تو ریاست كا ذمہ ہے لیكن یہ ذمہ كون اور كیسے ادا كرتا ہے اس پر بھی ایك نظر ڈال لیتے ہیں ۔پاکستان میں تعلیم کی نگرانی وفاقی حکومت كی وزارت تعلیم اور صوبائی حکومتیں کرتی ہیں۔ وفاقی حکومت زیادہ تر تحقیق اور ترقی نصاب، تصدیق اور سرمایہ کاری میں مدد کرتی ہے۔ صوبا ئی حكومتوں اپنے اپنے وسا ئل كو برو ئے كار لاتے ہو ئے تعلیم كی فراہمی كو یقینی بناتی ہے یوں وفاقی كی نسبت اكا ئیوں كا اس معاملے میں كردار نہایت اہمیت كا حامل ہے ۔ریاست پاكستان میں تعلیم کا نظام بنیادی طور پر برطانوی نظام سے اخذ کیا گیا ہے۔ جس میں ضرورت كے مطابق تبدیلیاں كی جاتی رہی ہیں ۔تعلیم كی فراہمی كو یقینی بنانے كے لیے وزارتیں ، مختلف محكمے اور ادارے بنا ئے گے ۔سركاری اسكولوں ، مدرسوں كا قیام عمل میں لایا گیا۔ حكومت كے ساتھ ساتھ نجی شعبے كو بھی ذمہ داری تفویض ہو ئی اور یوں كئی نجی تعلیمی ادارے بھی نہ صرف قا ئم ہو ئے بلكہ معیار تعلیم بہتر ہونے كے باعث نہایت مقبول بھی ہو ئے ۔ لیكن اس كے ساتھ ہی ایك واضح تقسیم سامنے آنے لگی۔ ملك میں متوسط طبقے نے نجی تعلیمی شعبہ اپنا لیا جبكہ غریب عوام ریاستی حكومتی شعبہ تعلیم كے رحم و كرم پر رہ گئی۔ یوں معیاری تعلیم تک رسائی کا انحصار، والدین کی آمدنی پر آن ٹكا۔یعنی جتنی بہتر فرد كی آمدنی ہوگی اسی کے مطابق اسكے بچے كومعیاری تعلیم میسر آ پا ئےگی ۔
پاکستان کے سرکاری شعبے میں آج بھی اسکولز اور اساتذہ کی کمی درپیش ہے۔ مزید یہ كہ سركاری شعبہ كی كاركردگی پر بھی سوالیہ نشان ہیں كہ وہ گزشتہ كئی دہائیوں سے معیار تعلیم بہتر نہیں كر سكا۔جسكا جواب یہ ملتا ہے كہ سركاری سطح پر مناسب وسائل ہی مہیا نہیں كیے جاتے جو كہ ایك حد تك درست ہے مكمل پورا سچ بھی نہیں ہے ۔
دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک تعلیم کی طرف خصوصی طور پر توجہ دے رہے ہیں۔ وہاں پر سڑکیں، پل وغیرہ بنانے کے بجائے تعلیمی شعبے میں کارکردگی بہتر کرنے کی طرف توجہ دی جاتی ہے اور اس کےلیے بجٹ میں بھاری رقم مختص کی جاتی ہے۔ کسی ملک کی ترقی کو جانچنے کا عالمی اصول بھی یہی ہے کہ اس ملک کی اوسط عمر، شرح خواندگی اور فی کس آمدن کتنی ہے؟ دنیا کے وہ ممالک، جو تنازعات کی زد میں ہیں، وہاں مستحکم ممالک کے مقابلے میں بچوں كےاسکول سے باہر رہنے کے امکانات كئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ ان کوتاہیوں کو ختم کرنے کے لیے ’ملینیم ڈیویلپمنٹ گولز‘ کے بعد اقوامِ متحدہ نے ’’سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ گولز‘ (پائیدار ترقی کے اہداف) کا اعلان کیا ۔ ان اہداف میں تعلیم کو بھی خصوصی اہمیت دی گئی ۔ پاکستان نے بھی اقوام متحدہ کے ان اہداف کو چیلنج سمجھتے ہوئے قبول کیا ۔ پائیدار ترقی کے اہداف کے تحت پاکستان نے اقوام متحدہ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ 2030ء تک اپنے ہر بچے کو لازمی بنیادوں پر معیاری پرائمری تعلیم فراہم کرے گا۔ وعدوں كے برعكس جہاں بین الاقوامی ادارے تعلیم پر جی ڈی پی کا کم از کم چار فیصد خرچ کرنے کی سفارش کرتے ہیں تو ہماری حکومتیں 1.7 فیصد یا اس سے تھوڑا زیادہ ہی خرچ کرتی ہے۔ اس پر ستم ظریفی یہ كہ جو رقم مختص كی جاتی ہے وہ بھی كہیں كرپشن تو كہیں اداروں اور افسران كی نااہلیوں كے باعث ضائع ہو جاتی ہے ۔ پختونخواہ ہو یا پنجاب یا دیگر صوبے تعلیمی نظام كو بہتر بنانے كے لیے بڑے بڑے منصوبے تاخیر كا شكار ہوجاتے ہیں اور پھر نامكمل منصوبوں كو یونہی بند كر جاتا ہے ۔ ہومن كیپٹلسٹ انوسمٹمنٹ پروگرامز ہوں، پی ایس ڈی پی یا اے ڈی پی كے فنڈ سے شروع ہونے والے قلیل مدتی منصوبے، غیر سنجیدگی ، سست رووی ،كاہلی ، سیاست اور افسران كی ملی بھگت جیسے عوامل ان منصوبوں كو گرہن لگا دیتے ہیں ۔ 4 سے5 سال كہ ایسے منصوبہ جات میں پہلے 2 سال توبھرتیوں میں ہی ضائع كر دیے جاتے ہیں باقی عرصہ میں فنڈ كی فراہمی میں تاخیر، افسران اور ملازمین كے مسائل جیسے عوامل میں منصوبہ جات كے مقصود نتائج كہیں گم ہو كر رہ جاتے ہیں ۔ یوں آخری سال میں تماشہ ختم پیسہ ہضم اور نتیجہ صفر بٹہ صفر ہی رہتا ہے ۔
حال ہی میں پلاننگ كمیشن آف پاكستان نے ایك رپورٹ شائع كی جس نے حكومتی بھاری بھر كم وعدوں كے برعكس اصل صورتحال واضح كر دی۔وزارت منصوبہ بندی كی ڈسٹركٹ ایجوكیشن پرفارمنس رپورٹ كا مطالعہ كریں تو معلوم ہوتا ہے كہ اس وقت ملك كے 77 اضلاع انتہائی كم تعلیمی كاركردگی والے اضلاع میں شامل ہیں جہاں معیار تعلیم كم ترین سطح پر ہے۔ اسلام آباد كے علاوہ ملك كے 134 اضلاع میں سے كوئی بھی ضلع ہائی پرفارمنس رینك میں شامل نہیں ہے۔ تعلیمی كاركردگی كے لحاظ سے ٹاپ 10 اضلاع میں پنجاب كے 7 اور پختونخواہ كہ 2 اضلاع شامل ہیں جبكہ سندھ ، بلوچستان سے ایك بھی ضلع اس میں شامل نہیں ہے۔ صورت حال یہ ہے كہ پاكستان كے 56 اضلاع میڈیم تعلیمی كاركردگی جبكہ 77 كم ترین تعلیمی كاركردگی دكھا رہے ہیں۔ رپورٹ نے انفراسٹكركچر ، اساتذہ كی كمی اور بنیادی سہولیات پر جو اشارعیہ دیے ہیں وہ بھی انتہائی مایوس كن ہیں ۔
اب ایسی صور حال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ا ن 2 كروڑ 60 لاكھ بچوں کا مستقبل کیا ہوگا جو اسكول گے ہی نہیں ؟کیا ان بچوں کو پڑھنے کا کوئی حق نہیں؟ نہ جانے ان بچوں میں ہی کتنے ہیرے پوشیدہ ہوں، یہ بچے کتنی صلاحیتوں کے مالک ہوں۔ مزید یہ كہ جو معصوم بچے اسكول جا رہے ہیں ان كو دی جانے والی غیر معیاری تعلیم كس حد تك انہیں بہتر انسان، اچھا شہری اوربہتر زندگی گزارنے كے لیے عقل و شعور فراہم كرے گی۔ كڑوا سط تو یہ ہے كہ آئین پاكستان كی شق پچیس اے جمہوریت كے نعرے لگانے والوں كا منہ چڑا رہی ہے اورملك كے بے قصور معصوم بچوں كا مستقبل داو پر لگا ہے۔