تحریر۔۔۔ محمد کاشف نوید
2016ءمیں جب ہم نے گاڑیوں کو خیر باد کہہ کر سیر و سیاحت کا آغاز دو پہیوں اور انجن سے مزین سواری یعنی موٹرسائیکل پر کیا تو اس وقت ”بائیک ٹورازم“ کچھ اتنا مقبول نہیں تھا اور بائیکرز سے زیادہ ان کے گھر والے اسے خطرناک سمجھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ موٹرسائیکل ایک ننگی سواری ہے خدانخواستہ حادثہ ہو جائے تو بچنا ناممکن ہوتا ہے۔
”زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے“ جس نے جس وقت پر اس دنیا سے جانا ہے وہ جا کر رہے گا ساری دنیا مل کر بھی اسے جانے سے نہیں روک سکتی اور جس نے نہیں جانا تو ساری دنیا مل کر بھی اسے زمین کے نیچے نہیں پہنچا سکتی یہ ہمارا ایمان ہے۔
موٹرسائیکل کو ننگی سواری کہنے والوں کے ذہن میں پتہ نہیں یہ سوچ کیوں نہیں آتی کہ کوسٹر‘ فلائنگ کوچ‘ بس یا پھر گاڑی جو بالکل بھی ننگی سواری نہیں ہوتی اور اس میں جو لوگ ٹور کر رہے ہوتے ہیں ان سب کی زندگی کا دارومدار صرف ایک ڈرائیور پر ہوتا ہے جس کے ہاتھ سٹیرنگ پر ہوتے ہیں اور اللہ نہ کرے وہ گاڑی حادثہ کا شکار ہو جائے تو نہ پھر اس کی چھت بچا سکتی ہے نہ اس کی چاردیواری…. حالانکہ وہ بالکل بھی ننگی سواری نہیں ہوتی۔
ایک سال قبل استورمیں ایک کوسٹر دریا میں جاگری اور لگ بھگ 24 بندے جو کراچی سے تعلق رکھتے تھے جان کی بازی ہار بیٹھے۔
اس سال جب ہم ٹور پر تھے تو استور سے کچھ کلومیٹر قبل ریسکیو 1122 والے دریا سے ایک گاڑی کو نکال رہے تھے جس میں چار بندوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔
دوسال قبل بابو سر ٹاپ سے ایک بس نیچے گر گئی تھی جس میں غالباً 24 افراد جان سے گئے تھے جبکہ اسی سال بچوں کے لیے تعلیمی نصاب بنانے والے ادارہ ”آفاق“ کے چیئرمین کی گاڑی بھی بابوسرٹاپ سے نیچے گری تھی جس میں وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
اللہ رب العزت دنیا سے جانے والے ان سب کے درجات بلند فرمائے (آمین‘ ثمہ آمین)
یہ صرف تین حادثات آپ کو بتائے ہیں اگر وہ سارے لکھنا شروع کریں تو ایک ایسی لمبی فہرست بنے گی کہ لوگ ڈر کر گھروں میںبیٹھ جائیں گے اور صرف ٹی وی اور موبائل پر پہاڑ‘دریا اور جھیلیں دیکھ کر ہی ٹور کا شوق پورا کرنے لگ جائیں گے۔
بات وہی ہے کہ زندگی نے جہاں جس مقام پر ختم ہونا ہے وہ ہو کر رہے گی لیکن جو لوگ یہ فرماتے نظرآتے ہیں کہ بائیک پر بچنا ناممکن ہوتا ہے پتہ نہیں ان کو یہ سوچ کیوں نہیں آتی کہ کسی بھی حادثہ کی صورت میں بائیک سے کم از کم چھلانگ لگا کر جان تو بچائی جاسکتی ہے بے شک بائیک جائے بھاڑ میں …. گاڑی میں تو آپ کے پاس باہر نکلنے کی گنجائش تک نہیں ہوتی۔
خیر ….! زندگی نام ہی حادثات کا ہے۔
گھر میں بیٹھے ہیں چھت سے پنکھا گرا اور منکا ٹوٹ گیا۔ راستے میں کہیں جا رہے تھے کہ کسی کی گاڑی کی بریک فیل ہوئی اور اس نے پیچھے سے ٹھوک دیا نتیجہ یہ نکلا کہ جناب ٹانگ ٹوٹ گئی۔ پڑوسیوں کے گھر تعمیراتی کام شروع تھا مزدور کے ہاتھ سے اینٹ چھوٹی اور سر پر آن لگی۔ صحن میں باہر بیٹھے ہوئے تھے کہ ہوائی فائرنگ کی گولی کو کسی نے ہمارا راستہ دکھا دیا۔ ایسے ہی گھومنے پھرنے واک پر نکلے تھے کہ بچے کے ہاتھ کا پتھر سر پر آن لگا…….. اسی سے ایک واقعہ یاد آ گیا …….. وہ بھی پڑھتے جائیے۔
ہوا کچھ یوں کہ ایک دن ہم اپنی ”بُوا“ یعنی پھوپھی کے ہاں بیٹھے اپنے پھوپھی زادوں سے یہی ٹورز کے حوالے سے گپ شپ کر رہے تھے تو ہماری پھوپھی کہنے لگیں کہ تم ٹور پر نکل جاتے ہو ہمیں تو ڈر لگتا ہے کہ خدانخواستہ کوئی حادثہ نہ ہو جائے۔ اتنی دور دورجاتے ہوئے پیچھے گھر والوں کو خبر تک نہیں ہوتی نہ موبائل فون کے سگنلز ہوتے ہیں نہ رابطے کی کوئی صورت۔ اللہ نہ کرے کچھ ہو گیا تو کیا ہوگا‘ بس ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کچھ ہو نہ جائے۔ ہم حسب معمول انہیں یہی سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ حادثہ تو کہیں بھی ہو سکتاہے یہ ضروری تو نہیں کہ بندہ ٹور پر ہو تو حادثہ ہو۔
ابھی یہی باتیں چل رہی تھیں کہ اللہ بخشے ہمارے مرحوم پھوپھا شاہ نواز ایڈووکیٹ کو‘ وہ گھرمیں داخل ہوئے‘ ماتھے پر خون کے نشان اور سفید پٹی بندھی ہوئی تھی۔
”ہائے کیا ہوا؟“ پھوپھی کی آواز کافی بلند تھی۔ کہنے لگے ”گرڈ روڈ سے گزر رہاتھا۔ روڈ کے دونوں اطراف میں بچے ایک دوسرے کو پتھر مار رہے تھے‘ ایک پتھر میرے سر پر آن لگا‘ بس پھر پٹی کرائی اور سیدھا گھرآ گیا۔“
ہمارا سوال یہ تھا”ٹور پر گئے ہوئے تھے؟“
ایک اور بھی سن لیجیے!!!
ہمارے بہنوئی کی ہمشیرہ سکول جانے کے لیے گھر سے نکلیں‘ روڈ پر آئیں تو ایک تیز رفتار اڑن طشتری یعنی چنگ چی رکشہ والے ٹکر مار دی۔ بیچاری کی ٹانگ ٹوٹ گئی‘ پلستر چڑھ گیا اور ایک دو ماہ بستر پر گزرے۔ حادثہ کی خبر ہم تک پہنچی تو بہن اور بہنوئی سے عیادت کرتے ہوئے پہلا سوال یہ تھا کہ ”ٹور پرگئی ہوئی تھیں؟“
دونوں سوالوں کا جواب نفی میں تھا….
پس تجربے سے ثابت ہوا کہ ”حادثہ کے لیے ٹور پر ہونا لازمی نہیں ہے“
حادثہ کہیں بھی کسی بھی صورت میں پیش آ سکتا ہے
اب اگر ان حادثات کی شرح کو دیکھا جائے تو بندہ پھر گھر سے باہر ہی نہ نکلے‘ کیا خیال ہے؟؟
اب آتے ہیں اصل بات کی طرف ! تمہید شاید بہت ہی لمبی ہو گئی ہے
اصل بات یہ ہے کہ ہمیں اڑتی اڑتی ہوئی خبر ملی ہے کہ اس سال چونکہ دو چار بائیکرز ٹور کے دوران جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں تو بائیک ٹورازم پر مشروط قسم کی پابندی لگنے جا رہی ہے۔
پہلا حادثہ ایبٹ آباد میں پیش آیا تھا اور اس میں سٹریٹ بائیکس پتہ نہیں کتنے سو سی سی تھی اس پر ایک بائیکر جاں بحق ہوا۔ دوسرا واقعہ جو ہمیں یاد ہے وہ کشمیر میں دو بائیکرز جاں بحق ہوئے جن کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان کے گاﺅں پنیالہ سے تھا۔
اب جناب ان اور ان جیسے دیگر حادثات کو مدنظر رکھتے ہوئے بائیک ٹورازم پر مشروط پابندی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
سب سے پہلے تو یہ دیکھیں کہ سیاحتی علاقوں میں بائیک ٹورازم سے جنریٹ ہونیوالا ریونیو بھی ختم ہو جانا ہے۔ گاڑی کی نسبت سستا پڑنے والا بائیک ٹورازم جس میں حادثات کی شرح بھی گاڑیوں کے حادثات کی نسبت نہ ہونے کے برابر ہے پر پابندی سے وہ نئی جگہیں جو گاڑیوں پر ڈسکور نہیں کی جا سکتیں منظر عام پر آنے سے رہ جانی ہیں۔ بائیکرز بائیکنگ کے ساتھ ساتھ ہائیکنگ اورٹریکنگ کرکے جن علاقوں تک پہنچتے ہیں وہاں ”ممی ڈیڈی“ لوگوں کا پہنچنا محال ہوتا ہے تو نہ صرف وہاں کے ریونیو میں خاطر خواہ کمی آئے گی بلکہ وہاں کی خوبصورتی کو منظر عام پر بھی نہیں لایا جا سکے گا اور یوں ان علاقوں تک عام لوگوں کی پہنچ مشکل ہو جانی ہے ….خیر!…. لمبی لسٹ ہے کیا کیا گنوائیں؟؟
اب جناب بائیک ٹورازم پر جو مشروط پابندی کی اڑتی اڑتی خبر ہمارے پاس پہنچی ہے وہ یہ ہے کہ بائیک ٹورازم کے لیے صرف پروفیشنل بائیکرز ہی الاوڈ کیے جائیں گے اور 150 سی سی سے کم بائیک کی اجازت بھی نہیں ہو گی۔ کہا جا رہا ہے کہ نان پروفیشنل بائیکرز روڈ سیفٹی اور ٹریفک قوانین کے تقاضوں کا خیال نہیں رکھتے جس کی وجہ سے حادثات جنم لیتے ہیں اور پروفیشنل بائیکرز پہاڑی راستوں میں اوور سپیڈنگ اور ویلنگ کرتے پائے گئے ہیں جس کی وجہ سے پابندی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
جناب والا! اس مشروط پابندی میں کچھ اچھی باتیں بھی نظر آ رہی ہیں پہلی یہ کہ صرف پروفیشنل بائیکرز کو ہی بائیک پر ٹور کرنے کی اجازت ہوگی جن کے پاس مکمل سیفٹی گیجٹس ہونگے۔ ہمارے ہاں کے تو ماشاءاللہ اکثر بائیکرز کا ہیلمٹ بھی آگے ہیڈ لائٹ پر آپ کو ٹنگا ہوا دکھائی دیتا ہے یا پھر ہیلمٹ کی جگہ منہ پر کپڑا لپٹا ہوا دکھائی دیگا۔
جو بائیکرز من چلوں کی طرح پہاڑوں کو دیکھ کر ”پگلا“ جاتے ہیں اور پھر اوورسپیڈنگ اور ویلنگ کے جیسے کرتبوں سے نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی جان کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں ان کو روکنے کی بھی اچھی کوشش ہے۔
حکومتی موقف میں یہ بات بالکل ٹھیک نظر آرہی ہے کہ ٹریفک قوانین اور روڈ سیفٹی کے تقاضوں کا خیال نہ کرنے والے بائیکرز پر اس پابندی کا اطلاق ہوگا۔
اب آ جائیں اس بات پر کہ 150سی سی سے کم بائیک پر بائیک ٹورازم الاوڈ نہیں ہوگا اگرچہ یہ بات دل کو لگتی ہے کہ ٹھیک ہے اس طرح ون ٹو فائیو اور سیونٹی سی سی موٹرسائیکلوں پر پر تیز رفتاری کے ”مظاہرات“ دکھانے والے ون ویلر ”شپاٹرز“ کو روکا جا سکے گا لیکن ایسے بائیکرز بھی ہیں جو ہیں تو پروفیشنلز اور ان کے سیفٹی گیجٹس بھی پورے ہیں اور وہ ٹریفک قوانین اور روڈ سیفٹی کی سمجھ بوجھ بھی رکھتے ہیں مگر معاشی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے 150 سی سی کی بائیک نہیں لے سکتے تو پھر ان کا کیا ہوگا؟
لیکن …. یہاں بھی حکومتی موقف کی بات دل کو اس طرح لگتی ہے کہ جب آپ گلگت بلتستان کے ضلع استور میں جاتے ہیں اور وہاں سے پھر چلم چوکی پرپہنچ کر یا تو آپ دیوسائی میدان کی طرف چلے جاتے ہیں یا پھر آپ منی مرگ‘ ڈومیل اور برزل پاس کی طرف جاتے ہیں تو وہاں بھی یہی شرط عائد کی جاتی ہے کہ آپ کے پاس 1500سی سی بائیک ہونی چاہئے گزشتہ سال تک یاماہا کمپنی کی بائیک وائی بی آر کو اجازت تھی
اب سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کا فیصلہ کون کریگا کہ پروفیشنل بائیکرز کون کون سے ہیں؟ اور کون کون سے نہیں ہیں؟؟ اور ایک پروفیشنل بائیکر سے کیا تقاضے کیے جا رہے ہیں؟
ہماری نظر میں ایک پروفیشنل بائیکر وہ ہے جس کے پاس ایک مکمل سیفٹی کٹ ہو‘ جس میں اس کا اچھی کمپنی کا ہیلمٹ‘ سیفٹی جیکٹ‘ شوز‘ بائیکرز کے مخصوص دستانے وغیرہ اور دیگر سامان کے ساتھ ساتھ ٹریفک اصولوں سے آگاہی اور سب سے بڑی بات کہ ایک پروفیشنل بائیکر اوورسپیڈنگ اور ون ویلنگ جیسے قبیح فعل سے بالکل ناواقف ہوتا ہے۔ پروفیشنلز بائیکرز جب اکٹھے نکلتے ہیں تو ایک لائن اور روڈ کے انتہائی بائیں جانب سفر کرتے ہیں تاکہ روڈ پر چلنے والی باقی ٹریفک کو ان سے کوئی دقت نہ ہو۔
خیر…. پروفیشنل بائیکرز کی کئی دیگر اورخصوصیات بھی ہوتی ہیں تاہم انکا ذکر تحریر میں مسلسل طوالت کا باعث بنتا جائے گا۔
ضرورت طلب امر یہ ہے کہ بائیک ٹورازم پر پابندی کی بجائے کچھ ایسی اصلاحات لائی جائیں جس سے نہ صرف بائیک ٹورازم کو فروغ حاصل ہو بلکہ ایسے من چلے ”شپاٹر“ موٹرسائیکل سواروں کی راہ بھی روکی جائے جو حادثات کا موجب بنتے ہیں تاکہ بائیک ٹورازم کے ذریعے سیاحتی علاقوں میں سیروسیاحت کے ذریعے وہاں کے لوگوں کی آمدنی میں بھی اضافہ کو ممکن بنایا جا سکے۔